اسلام آباد: سپریم کورٹ کے 1980ء کے رولز تبدیل کرکے نئے رولز 2025ء جاری ہونے کی نئی ترامیم بھی سامنے آ گئی ہیں۔
سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق فل کورٹ کی منظوری کے بعد 1980 کی جگہ سپریم کورٹ رولز 2025 جاری کردئیے گئے ہیں جن کے تحت تمام درخواستیں اور پیپربکس اب لازمی طور پر الیکٹرانک صورت میں جمع ہوں گے جبکہ سکین شدہ نقول فراہم کرنا لازم ہے۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ رولز 2025 کے تحت نوٹسز، احکامات، تصدیق شدہ نقول اور درخواستیں ڈیجیٹل صورت میں جاری کی جائیں گی جبکہ ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کی اجازت ہوگی۔
نئے رولز کے مطابق حلف نامے اپوسٹیل کے ذریعے تصدیق کیے جا سکیں گے، فریقین اور وکلاء اپنے فون نمبر ، ای میل، پتے اور ڈیجیٹل ایپ کی تفصیلات فراہم کریں گے جبکہ بذریعہ ڈاک بھیجے گئے عدالتی دستاویزات قبول نہیں کیے جائیں گے۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ فریقین آن لائن یا بالمشافہ رکارڈ معائنہ یا نقول حاصل کرسکیں گے، فوری نوعیت یاعبوری ریلیف کی درخواستیں 14دن کےاندر یاجلداز جلد سماعت کے لیے مقرر کی جائیں گی جبکہ رجسٹرار کو اختیار ہوگا کہ وہ چھٹے شیڈول کے مطابق فارمیٹ کی پابندی یقینی بنائے۔
اعلامیے کے مطابق نئے رولز میں کئی دہائیوں بعد عدالتی فیس اور وکلا و عملے کے اخراجات میں ترمیم کی گئی، فوجداری درخواستوں پرفیس معاف (سوائےتصدیق شدہ نقول کے) اور جیل سے دائر درخواستوں کی نقول مفت کردی گئی ہیں جبکہ رجسٹرار کو اختیار ہےکہ سزائے موت کےکیسز میں ریاستی خرچ پروکیل مقرر کرے۔
نئے رولز کے مطابق آرٹیکل 184(3) اور توہین عدالت کے احکامات کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کا اجراء کیا گیا ،جس کے تحت ہر فیصلے پر صرف ایک نظرثانی کی اجازت ہوگی، عبوری احکامات کےخلاف اپیل کم از کم 2 ججز کا بینچ سنے گا اور دیگر اپیلیں بشمول بریت کےخلاف اپیل کم از کم 3 ججز سنیں گے جبکہ درخواست ذاتی طور پر یا متبادل وکیل کے ذریعے دی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق نئے رولز کے تحت غیر سنجیدہ نظرثانی درخواستوں پر جرمانہ اور سکیورٹی ڈپازٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، فریق اپنا وکالت نامہ منسوخ کرکے نیا ایڈووکیٹ آن رکارڈ مقرر کر سکتا ہے، آرٹیکل 186- اے اور فیملی کورٹس ایکٹ 1964 کی دفعہ 25=اے کے تحت منتقلی کی درخواستوں کو تسلیم کیا گیا۔
نئے رولز کے مطابق قابلِ مصالحت جرائم میں مصالحت کو باضابطہ تسلیم کیا گیا، بریت کے خلاف اپیل میں عدم پیشی پر ضمانت طلب یا قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق نئے رولز کے تحت برانچ رجسٹریاں صوبائی دارالحکومتوں میں برقرار رہیں گی اور اسلام آباد یا متعلقہ رجسٹری میں فائلنگ کی اجازت ہوگی، تمام فیس، اخراجات، سکیورٹی ڈپازٹ اور الاؤنسز پر تین سال بعد نظرِثانی ہو گی۔
رولز 2025 کے تحت ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے امتحانات ختم، پانچ سالہ تجربہ رکھنے والے وکلا براہِ راست اے اوآر بن سکیں گے، دیوانی مقدمات میں 30 دن میں سکیورٹی برائے اخراجات جمع نہ کرانے پراپیل کی اجازت ازخود ختم ہوجائے گی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ رولز میں ترامیم اور فیسوں میں اضافے پر سپریم کورٹ بار نے تحفظات کا اظہار کردیا۔
سپریم کورٹ بار نے اعلامیے میں کہا ہے کہ رولز میں ترامیم بار سے مشاورت کے بغیر کی گئیں۔ کورٹ فیسوں میں اضافہ فراہمیِ انصاف کے اصول کے خلاف ہے اور اس سے مقدمات کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ انصاف کا آخری فورم ہے، مالی رکاوٹیں پیدا کرکے غریبوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے۔ آئین سستا، تیز تر اور بلا رکاوٹ انصاف کی ضمانت دیتا ہے۔