ملتان: شہرِ اولیاء ایک بار پھر جگمگا اُٹھا! تاریخ، ثقافت، محبت اور تخلیق کی خوشبو سے مہکتا، چھٹا ملتان لٹریچر فیسٹیول 2025، علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے ایک یادگار تحفہ ثابت ہوا۔ ملتان آرٹس کونسل اور ملتان ٹی ہاؤس کے خوبصورت ماحول میں تین روز تک جاری رہنے والے اس فیسٹیول نے ثابت کر دیا کہ ملتان صرف روحانیت کا گہوارہ نہیں، بلکہ فکر و فن کا روشن مینار بھی ہے۔
اس بار کا فیسٹیول لودھراں پائلٹ پراجیکٹ (LPP) کے اشتراک سے منعقد ہوا، جس کا و عنوان اس سوچ کا عکاس تھا کہ ادب صرف کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ انسان اور زمین کے درمیان ایک زندہ، سانس لیتا مکالمہ ہے۔
تین دنوں تک شہر بھر کے اہلِ قلم، فنکار، اساتذہ، طلبہ اور قارئین ایک ہی فکری چھت تلے جمع رہے۔ ممتاز دانشوروں ڈاکٹر انوار احمد، حارث خلیق، وجاہت مسعود، ڈاکٹر غلام اعظم، ڈاکٹرعامرسہیل،شاکر حسین شاکر، علی نقوی اور اقصیٰ احمد نے مکالمے کے ایسے چراغ جلائے جنہوں نے سماجی شعور، ماحولیاتی تبدیلی، جمہوریت، خواتین کی قیادت، تعلیم اور صحافت جیسے موضوعات کو نئی معنویت دی۔
کتاب میلہ 2025 نے فیسٹیول کو علم و دانش کے ایک عظیم جشن میں بدل دیا۔ دس ہزار سے زائد کتابوں کی نمائش اور سو سے زیادہ نئی تصانیف کی رونمائی نے ملتان کے ادبی منظرنامے کو نئی زندگی دی۔ ڈاکٹر انوار احمد کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں مقامی لکھاریوں اور نوجوان تخلیق کاروں کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا گیا، جہاں ادب اور چائے کا سنگم ملتان کے ڈھابے جہاں لفظوں نے جنم لیا.
ملتان کے ادبی منظرنامے میں ڈھابوں کا کردار کسی ادارے سے کم نہیں۔ ان خاکی میزوں، مٹی کے پیالوں اور چائے کی بھاپ کے درمیان وہ فکری روشنی جنم لیتی رہی جس نے کئی نسلوں کے ادیبوں کو متاثر کیا۔قیامِ پاکستان سے قبل کے دنوں میں بھی شہرِ اولیاء کے ان ڈھابوں پر ادبی مکالمے ہوا کرتے تھے جہاں زبان و بیان کے رموز پر بحثیں چھڑتیں، نئی تحریکوں کی بنیاد رکھی جاتی اور فکری اختلافات کو دلیل کے دامن میں سمیٹا جاتا۔ انہی نشستوں نے ادب کو عوامی رنگ دیا اور تحریر کو دل کی زبان بننے کا موقع فراہم کیا۔وقت گزرتا گیا مگر روایت برقرار رہی۔
آج بھی ملتان کے ڈھابے اسی جوش و جذبے سے روشن ہیں۔ معروف ادیب رضی الدین رضی، ڈاکٹر عامر سہیل، علی اطہر اور دیگر تخلیق کار ان محفلوں کا حصہ رہے ہیں جہاں چائے کے کپ کے گرد گھومتے ہوئے لفظوں نے کہانیوں، نظموں اور کالموں کا روپ دھارا۔یہ ڈھابے نہ صرف میل ملاقات کا مرکز ہیں بلکہ وہ پلیٹ فارم ہیں جہاں ادب، فلسفہ، سماج اور محبت کے رنگ ایک ساتھ گھلتے ہیں۔ ملتان کی ادبی روح ان ہمحفلوں میں سانس لیتی ہے جہاں بات چائے سے شروع ہوتی ہے اور فکر کی وسعتوں میں جاسمٹتی ہے۔ممتاز شاعر شاکر حسین شاکر نے جہانزیب گورچانی اور ضیاء گورچانی سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ یہ نشست فن، مکالمے اور دوستی کا ایسا حسین امتزاج تھی جس نے حاضرین کو دیر تک مسحور کیے رکھا۔
دوسرے روز خواتین کے حوصلے اور قیادت پر مبنی سیشن نے فیسٹیول میں نئی روح پھونک دی۔ خواتین تخلیق کاروں نے اپنے فن، جدوجہد اور کہانیوں سے حاضرین کے دل جیت لیے۔اسی دوران سومیہ فرحین کی میزبانی میں”پاکستان میںخواتین کی آواز اور قیادت” اور اقصیٰ احمد کی میزبانی میں منعقد ہونے والا سیشن "2025 کے سیلابوں کے بعد کے اسباق اور آئندہ کا راستہ” خواتین کے حقوق، مسائل اور شعور کے ساتھ ماحولیاتی بیداری کی ایک نئی تحریک بن کر ابھرا، جس میں ماہرین نے خواتین کی ترقی، حقوق کی حفاظت اور خودمختاری پر قیمتی خیالات پیش کیے۔
جس میں سماجی حلقوںسے تعلق رکھنے والے معروف افراد ڈاکٹر عبدالصبور، فرحضیاء، صبیحہ شاہین، عظمیٰیعقوب، عالیہ سندس، نذیر احمد اور انیلہ اشرف نے خواتین کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد مزید تیز کرنے، معاشرے میں تعلیمی سطح پر خواتین کے حقوق کا شعور بیدار کرنے اور پاکستان میںموجود قوانین پر عملدرآمد سخت کرنے کی تجاویز دیتے ہوئے خواتین کے حقوق اور سست ترقی میںحائل رکاوٹوں کا بھی زکر کیا.
قبل ازیںپہلے اور دوسرے روز کا اختتام مشاعروںمیںداد تحسین دیتے ہوئے ہوا. پہلے روز سرائیکی مشاعرے میں جنوبی پنجاب کے نامور شعراء نے محبت، ثقافت اور مٹی کی خوشبو سے لبریز اشعار سنائے۔ تالیوں کی گونج، سرائیکی زبان کی مٹھاس اور فکری جذبے نے محفل کو امر کر دیا۔دوسرے روز معروف شعراء رضی الدین رضی، قمر رضا شہزاد اور نوازش علی ندیم سمیت دیگر شعراء نے داد پائی.
اختتامی تقریب میں تمام شرکاء کا ایک ہی مؤقف تھا کہ ملتان لٹریچر فیسٹیول محض ایک تقریب نہیں بلکہ ایک تحریکِ فکر و فن ہے، جو نئی نسل میں علم، رواداری اور تخلیقی سوچ کو پروان چڑھا رہی ہے۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملتان لٹریچر فیسٹیول 6 جنوبی پنجاب کے ادبی منظرنامے پر ایک روشن قوسِ قزح کی مانند ہےجہاں کتابیں بولتی ہیں، خیالات ملتے ہیں، اور انسانیت ایک بار پھر اپنی خوبصورتی سے جلوہ گر ہوتی ہے۔