سید خالد جاوید بخاری
میڈیکل تعلیم پاکستان کے تعلیمی نظام کا بنیادی ستون ہے۔ ملک میں اس وقت 45 سرکاری اور 72 غیر سرکاری میڈیکل کالجز و یونیورسٹیاں موجود ہیں جو مجموعی طور پر تقریباً 15,800 MBBS نشستیں فراہم کرتی ہیں (Pak Learning Spot, 2022)۔ تاہم، نشستوں کی کمی اور ہر سال ہزاروں طلباء کے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے رجحان نے نہ صرف ملکی معیشت پر دباؤ بڑھا دیا ہے بلکہ تعلیم کے معیار پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
پاکستان کے 45 سرکاری میڈیکل کالجز میں کل 7,800 MBBS نشستیں دستیاب ہیں۔ صوبہ وار صورتحال کے مطابق
پنجاب کے 16 کالجز، کی 3,376 نشستیں، خیبر پختونخواہ کے 5 کالجز، کی 1,435 نشستیں، سندھ کے متعدد کالجز، کی 2,400 نشستیں، بلوچستان کے ایک کالج، کی 340 نشستیں، آزاد کشمیر کے ایک کالج، کی 300 نشستیں اوراسلام آباد کے ایک کالج، کی 200 نشستیں ہیں.
پاکستان کے 72 نجی میڈیکل کالجز میں تقریباً 8,000 نشستیں دستیاب ہیں۔ ان کالجز میں فیسیں سرکاری اداروں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں (Pak Learning Spot, 2021)۔ملک کے 117 میڈیکل کالجز میں مجموعی طور پر 15,800 نشستیں ہیں۔ تاہم، یہ طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو 2023-24 کے سیشن میں صرف 32 پرائیویٹ کالجز کی 4,000 نشستوں کے لیے 10,397 درخواستیں موصول ہوئیں (Dawn, 2023)۔ سال 2016ء میں تقریباً 26,000 طلباء داخلہ نہ ملنے کے باعث تعلیم سے محروم رہ گئے (Ayub Medical College, 2016)۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی واضح عکاسی کرتے ہیں کہ ملک میں تعلیمی مواقع طلب کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور نشستوں کی کمی اور معیار کی بحث نے پاکستانی طلباء کو بیرونِ ملک جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ہر سال تقریباً 3,000 طلباء چین، روس، قازقستان، ترکی اور دیگر ممالک کا رخ کرتے ہیں، جن میں 30 فیصد خواتین شامل ہیں (Pakistan Today, 2024)۔چین میں 2019 میں پاکستانی طلباء کی تعداد 28,023 تک پہنچ گئی (Ministry of Education China, 2019)۔اس رجحان پر سالانہ تقریباً 300 ملین امریکی ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے بھاری نقصان ہے۔
میڈیکل میںداخلے کی نشستوں کی کمی کے باعث ہزاروں طلباء داخلہ حاصل نہیں کر پاتے اور بیرونِ ملک تعلیم کے اخراجات ملکی معیشت پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔اسطرح غیر ملکی اداروں کا تعلیمی معیار اکثر پاکستانی معیار سے بہتر سمجھا جاتا ہے، جس سے ذہین طلباء ملک چھوڑ جاتے ہیں۔
حکومتی سطح پر اقدامات اور تجاویز کے ضمن میںسرکاری اداروں میں ڈبل شفٹ (صبح و شام کی کلاسیں) متعارف کرا کے نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے، جس سے زیادہ طلباء کو موقع ملے گا۔اگر تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور نشستوں کی گنجائش بڑھائی جائے تو نہ صرف ہر سال 300 ملین ڈالر کی بچت ممکن ہے بلکہ بیرونِ ملک جانے والے طلباء کی تعداد بھی کم ہو گی۔
پاکستان میں میڈیکل تعلیم کے شعبے کو فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ موجودہ محدود نشستیں اور طلباء کا بیرونِ ملک رجحان ملکی تعلیمی ڈھانچے اور معیشت دونوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ڈبل شفٹ کلاسوں اور تعلیمی معیار کی بہتری جیسے اقدامات نہ صرف طلباء کو بہتر مواقع فراہم کریں گے بلکہ معیشت کو بھی مضبوط بنائیں گے۔
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔