Untitled 79

سسرال کی چار دیواری میں‌گم ہوتی زندگیاں‌

فضا مریم

ملتان کی 23 سالہ آسیہ، ایک عام سی لڑکی، جس کے خواب شاید کچھ خاص نہیں تھے۔ ایک پیارا سا گھر، شوہر کا ساتھ، اور ماں بننے کی خوشی؛ لیکن آسیہ کا مقدر کچھ اور تھا، 6 ماہ کی شادی اور 5 ماہ کی حاملہ زندگی کے بعد، اپنے ہی سسرال میں، گلا کاٹ کر بےرحم طریقے سے قتل کر دی گئی۔

یہ صرف آسیہ کی کہانی نہیں، یہ ان بےشمار لڑکیوں کی داستان ہے جو شادی کے بعد "Acceptance” کے انتظار میں اپنی زندگی قربان کر دیتی ہیں۔ سسرال میں بہو کو اکثر "خاندان میں آئی ہوئی پرائی چیز” سمجھا جاتا ہے، نہ کہ گھر کا حصہ، لڑکی چاہے کتنی ہی وفادار، خدمت گزار یا صابر ہو، بعض گھروں میں اسے کبھی بیٹی نہیں مانا جاتا۔
Untitled 81
پاکستان میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آسیہ جیسے کیسز اکثر رپورٹ نہیں ہوتے یا میڈیا تک محدود پہنچتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق، سال 2024ء میں صرف پنجاب میں 1,200 سے زائد خواتین کو گھریلو تشدد یا غیرت کے نام پر قتل کا نشانہ بنایا گیا ۔ یہ اعدادوشمار صرف رجسٹرڈ کیسز ہیں، حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے.

جس شوہر، دیور اور نند جیسے رشتے، جن سے تحفظ کی امید کی جاتی ہے، وہی جان کے دشمن بن جاتے ہیں؟ کیوں بہو سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ظلم برداشت کرے، خاموش رہے، اور سب کچھ سہتی جائے؟ کیا صرف اس لیے کہ یہ سکھایا گیا ہے کہ "عزت شوہر کے گھر سے ہی ہے”؟

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف 2016 کا قانون (پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 311) موجود ہونے کے باوجود، صرف 23 فیصد مقدمات میں سزائیں ہوتی ہیں۔اکثر کیسز "معافی” کے نام پر ختم کر دیئے جاتے ہیں، جہاں خاندان کے دباؤ میں آ کر متاثرہ خواتین یا ان کے ورثاء عدالت سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔
Untitled 82
عورت کو برداشت کرنا سکھایا جاتا ہےجیسا آسیہ کی کہانی میں واضح ہے کہ، لڑکیوں کو بچپن سے ہی "صبر” کی تربیت دی جاتی ہے، جبکہ لڑکوں کو "حق” کا احساس دلایا جاتا ہے۔بہو کو "پرائی” سمجھنے کایہ رویہ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق، 68 فیصد خواتین نے تسلیم کیا کہ انہیں سسرال میں "خاندان کا حصہ” نہیں سمجھا گیا ۔

آسیہ نے شاید چیخنے کی ہمت نہیں کی، شاید وہ اپنے والدین کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یہی تو ہماری بیٹیوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے "ماں باپ کی عزت” جسے بچاتے بچاتے وہ اپنی جان دے بیٹھتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو کب سکھائیں گے کہ ظلم برداشت کرنا عزت نہیں، خاموشی اور گناہ ہے؟

بہو کو آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک اجنبی سمجھا جاتا ہے۔ اکثر ساس نندیں یہ بھول جاتی ہیں کہ کل ان کی اپنی بیٹی بھی کسی کی بہو بنے گی۔ وہ بھول جاتی ہیں کہ عزت دینا عزت پانے کی پہلی شرط ہے۔

لڑکیاں اکثر اس خوف سے نہیں بولتیں کہ کہیں ان کا گھر برباد نہ ہو جائے، لیکن جب وہ خاموش رہتی ہیں، تو وہ صرف اپنا نہیں، ہر اُس لڑکی کا راستہ مشکل بناتی ہیں جو کل اسی راہ سے گزرے گی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بیٹیوں سے صرف "ٹھیک ہو؟” کا سوال نہ کریں، بلکہ "خوش ہو؟” بھی پوچھیں۔ ان کے چہروں پر نظر رکھیں، ان کی آواز سنیں، ان کی خاموشی پڑھیں۔

آسیہ جیسے واقعات پر آن لائن مہمات نے عوامی بیداری پیدا کی ہے، کئی پلیٹ فارمز نے اس موضوع پر ڈاکیومنٹریز اور مضامین شائع کیے ہیں، لیکن شعور ندارد ہے، پاکستان میں خواتین کے لیے 1099 ہیلپ لائن اور دیگر ایپس کے ذریعے تشدد کی رپورٹنگ ممکن ہے، لیکن ان تک رسائی محدود ہے ۔

آسیہ اب نہیں رہی۔ لیکن اگر اس کی موت ہمیں جھنجھوڑ دے، حکومت لڑکیوں کو خوداعتمادی اور قانونی حقوق کی تعلیم نصاب کا حصہ بنائے، والدین کو بیٹیوں کی "خاموشی” کو پڑھنا ہوگا اور معاشرے کو آسیہ جیسی کہانیوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا تاکہ معاشرے میں حساسیت پیدا ہو۔سب سے ضروری یہ کہ اگر ایک ساس اپنی بہو کو بیٹی سمجھ لے، نند اپنی بھابھی کو بہن، تو شاید کسی اور آسیہ کو زندگی مل جائے۔

Untitled 80
فضا مریم ملتان سے تعلق رکھتی ہیں اور شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، رپورٹر اور اینکر ہونے کے ساتھ مختلف موضوعات پر لکھتی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں