Untitled 34

ہمدردی نہیں‌انصاف، زمین کے حقوق اور موسمیاتی انصاف؛ انسانی حقوق کمیشن کے کسان کنونشن میں‌مطالبہ

ملتان: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے زیر اہتمام کسان کنونشن میں جنوبی پنجاب بھر سے زرعی مزدوروں، کسانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی، جہاں انہوں نے موسمیاتی تبدیلی، زمین کے حقوق، کارپوریٹ فارمنگ اور زرعی پالیسی سازی میں خواتین اور اقلیتی برادریوں کی منظم بے دخلی پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔

Untitled 35
کسان کنونشن کے مہمان شرکاء

مقررین نے پاکستان کے زرعی مرکز پر موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بدلتے موسم اور خشک ہوتی نہریں فصلوں کے اوقات اور پیداوار کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ ایچ آر سی پی کی کونسل رکن لبنیٰ ندیم نے اس بات پر زور دیا کہ پنجاب کے لیبر قوانین میں خواتین زرعی مزدوروں کو اب بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے، حالانکہ موسمیاتی آفات کا سب سے زیادہ بوجھ یہی خواتین اٹھاتی ہیں۔

کنونشن کا مرکزی موضوع زمین کے حقوق تھا۔ صدر چولستان بچاؤ تحریک، اللہ رکھا نے چولستان کے مقامی کسانوں کی مبینہ بے دخلی کی مذمت کی، کہ ایچ آر سی پی کی سابق چیئرپرسن حنا جیلانی کی سربراہی میں ہونے والے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے نتیجے میں 27,000 سے زائد افراد کو زمین الاٹ کی گئی تھی۔ کوٹ ادو سے تعلق رکھنے والے کارکن رفیع شنکر اور کاریتاس کے ایگزیکٹو افسر سلیم چنن نے ان خاندانوں کے خلاف بے دخلی کی دھمکیوں کی مذمت کی جو کئی نسلوں سے یہ زمینیں آباد کرتے آئے ہیں۔

شرکاء نے کارپوریٹ فارمنگ منصوبوں کی سختی سے مخالفت کی، جو مقامی کسانوں کی بے دخلی اور ماحولیاتی نظام کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ انجمن تحریک کسان بھکر کے صدر، مہر غلام عباس سیال نے ‘آبائی زمینوں’ کو بڑی کمپنیوں کو لیز پر دیئے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "غذائی تحفظ کارپوریٹ لالچ پر مقدم ہونا چاہیے۔” انجمن تحریک کسان، عارف والا کے صدر رانا محمد سلیم نے ایسے منصوبوں کے لیے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی پر روشنی ڈالی، اور کہا کہ ان منصوبوں سے کمپنیوں نے بھاری منافع کمایا جبکہ مقامی افراد کا روزگار بھی متاثر ہوا۔

Untitled 36
کسان کنونشن کے موقع پر ہال کا منظر

خواتین اور اقلیتوں نے بھی اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ انسانی حقوق کی کارکن علیشا نایاب نے مطالبہ کیا کہ خواتین اور مسیحی مزدوروں کو لیبر حقوق اور زمین کے فوائد فراہم کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ "خواتین بیج بوتی ہیں، فصل اگاتی ہیں اور کاٹتی ہیں، مگر قانون کی نظر میں ان کا کوئی وجود نہیں۔” ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے اراکین نے بھی زرعی پالیسی سازی میں شمولیت کا مطالبہ کیا۔ انجمن مزارعین خانیوال کی صدر، عقیلہ ناز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ "خواتین زرعی مزدوروں کا دن” سرکاری طور پر منایا جائے اور خواتین کسانوں کو پالیسی سازی میں مرکزی حیثیت دی جائے۔

کنونشن کے اختتام پر ایک مطالبات کا منشور پیش کیا گیا، جس میں زرعی مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت کے قوانین کو صنعتی مزدوروں کے مساوی کرنے، خواتین اور اقلیتوں کو زرعی مزدوروں کے طور پر باضابطہ تسلیم کرنے، کارپوریٹ زمینوں پر قبضے کے خاتمے، اور طویل مدتی کاشتکاروں کے لیے زمین کی ملکیت کے حقوق دینے کا مطالبات شامل تھے۔

شرکاء نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ریاستی زمینوں کو بے زمین کسانوں میں تقسیم کیا جائے اور خواتین کو مساوی ملکیتی حقوق دیئے جائیں۔ ایچ آر سی پی پنجاب کے نائب صدر راجہ اشرف نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

انسانی حقوق کے کارکن فادر مقصود نے شرکاء کے اجتماعی عزم کو ان الفاظ میں سمیٹا:
"ہم ہمدردی نہیں، انصاف مانگ رہے ہیں۔”

اپنا تبصرہ لکھیں