صفورا امجد
دنیا بھر میں ہر سال 30 جولائی کو عالمی یوم انسداد انسانی اسمگلنگ منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد انسانی استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا اور متاثرہ افراد کی مدد کرنے کے لیے عالمی شعور اجاگر کرنا ہے۔
در حقیقت انسانی اسمگلنگ ایک ایسا سنگین جرم ہے جس میں انسانوں کو زبردستی یا دھوکے کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچایا جاتا ہے اور بعدازاں ان سے مشقت، جنسی استحصال، بھیک منگوانا یا دیگر غیر انسانی کام کروائے جاتے ہیں ۔اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال لاکھوں افراد انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
انسانی اسمگلنگ کے پیچھے بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔جیسا کہ غربت، بے روزگاری یا تعلیم کی کمی یہ وہ وجوہات ہیں جو افراد کو بہتر مستقبل کے خواب کی تکمیل کے لیے دھوکے بازوں کے جال میں پھنسنے پر مجبور کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ مسئلہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں غربت ، تعلیم کی کمی اور روزگار کی کمی جیسے عناصر انسانی اسمگلنگ کو فروغ دیتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ سے متاثرہ افراد کو کبھی جنسی غلامی پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھر جسمانی اعضاء کی فروخت جیسے وحشیانہ جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر نوجوان انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا ہدف بن جاتے ہیں۔ انہیں تعلیم یا نوکری کے خواب دکھا کر جنسی استحصال پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی افراد کو جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں میں بھی بیچا جاتا ہے ۔
سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے بھی انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جھوٹی ملازمتوں ، آن لائن بھرتیوں یا دوستی کے ذریعے لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے۔ مختلف ادارے انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف دیگر قانون بھی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں ۔
میڈیا کو چاہیے کہ انسانی اسمگلنگ جیسے موضوعات کو ترجیح دے تاکہ لوگوں میں شعور بیدار ہو۔اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو بھی آ گاہی دینی چاہیے تاکہ وہ انسانی اسمگلنگ جیسے سنگین مسائل سے بچ سکیں۔
انسانی اسمگلنگ کے بارے میں خود بھی جانیں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں. انسانی اسمگلنگ کے خلاف عوامی شعور کو بیدار کرنا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو انفرادی طور پر اس جرم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے. آج کے دن کا مقصد معاشرے میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف آواز اٹھانا ہے تاکہ معاشرہ اس سنگین ظلم سے پاک ہو ۔ کیونکہ تبدیلی تب ہی آئے گی جب ہم خاموشی توڑیں گے ۔