اسلام آباد:قائمہ کمیٹی میں ایف بی آر کی طرف سے اربوں روپے کی نئی گاڑیاں خریدنے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا،سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے معاملے کا نوٹس لے لیا،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک ہزار گاڑیاں ایف بی آر کس لیے خرید رہا ہے،پہلے فیلڈ آفیسر کیاسائیکل پر جاتے تھے،
حکام وزارت خزانہ کے مطابق یہ گاڑیاں فیلڈ افسران کیلئے خریدی جارہی ہیں.اربوں روپے کی ایک ہزار گاڑیاں خریدنے کا معاملہ پر کمیٹی اراکین ایف بی آر پر حکام برہم دکھائی دیئے۔فیصل واڈا نے کہا کہ ایف بی آر مخصوص کمپنیوں سے گاڑیاں خرید رہی ہے،وہ گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، جن کی مینٹینس کم ہے وہ خریدی جارہی ہیں.کھانچے والا کنٹریکٹ کیا جارہا، اس سے بڑا کیا سکینڈل ہوگا،یہ بہت بڑا سکینڈل ہے کرپشن کا غار کھولا گیا ہے،کیا یہ گاڑیاں ایف بی آر کا ٹیکس گیپ پورا کرنے کیلئے خریدی جارہی ہیں،اس کو فی الحال روکا جائے پھر کمپٹیشن کے ذریعے خریداری کی بات کی جائے،اس معاملے کو فی الحال روکا نہیں گیا تو بہت بڑا کرپشن سیکنڈل ہوگا،کمیٹی نے گاڑیوں کی خریداری روکنے کی ہدایت کردی۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں حکومتی ملکیتی اداروں کے ترمیمی بل 2024ء پر بھی غور کیاگیا،سینیٹر انوشہ رحمان نےسٹیٹ اونڈ انٹر پرائزز ترمیمی بل 2024ء پیش کیا ۔وزارت خزانہ نےسٹیٹ اونڈ انٹر پرائزز ترمیمی بل 2024ء کی مخالفت کر دی۔تاہم کمیٹی اراکین نے سینیٹر انوشہ رحمان کی ترمیم کی حمایت کر دی۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کو ابھی تک حکومتی ملکیتی اداروں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے،پی ٹی سی ایل کی نجکاری 1996ءمیں ہو چکی تھی۔پی ٹی سی ایل کو ایس او ای فہرست سے نکالا جائے.سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ایک ڈویلپمنٹ پارٹنر کے ساتھ مل کر ایس او ایز ایکٹ لاگو کیا گیا ہے،ایس او ای ایکٹ میں ترمیم کا کوئی فائدہ نہیں ہے.