سارہ خان
شکست وریخت کا شکار کھنڈرات کی مایوس حسرتیں،اگر کبھی اوج ثریا تک پہنچ جائیں تو ان کھنڈرات کی نہ صرف تقدیر بدلتی ہے بلکہ انہیں وہ آ ب وتاب بھی ملتی ہے کہ تاریخ میں ان کا نام روز روشن کی طرح رقم ہو جاتا ہے۔
میرا اشارہ تحصیل تونسہ شریف کےدور دراز اور پسماندہ گاؤں ٹبی کوڑے خان میں موجود گورنمنٹ گرلز ایلیمنٹری سکول ٹبی کوڑے کی طرف ہے۔غربت،بھوک اور جہالت میں پسےیہاں کے باسیوں نے پہلی بار سکول کے قیام پر کیا کیا خواب نہ دیکھے ہوں گے،اپنے بچوں کے حسین مستقبل کے خواب،اپنے بچوں کی بدلتی تقدیر کے خواب،علاقے کی تعمیر و ترقی کے خواب ۔
نئے جذبوں،ولولوں اور کچھ کر دکھانے کا درد لیے جب میں یہاں جوائن ہوئی تو یہاں کی صورتحال دیکھ کر رونے کو جی چاہا۔یہ درد اس جذباتی سوچ کا ردعمل تھا،جو کالج اور یونیورسٹی میں ریاضی جیسے خشک مضمون کی اعلیٰٰ تعلیم حاصل کرنے کے دوران پروان چڑھی تھی۔میرے اساتذہ کرام کی تربیت اور رہنمائی کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اس قوم اور ملک کے لیے اپنی استعداد بھر صلاحیتوں اور کاوشوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
میرے والدین اور اساتذہ کرام تیقن کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ سارہ خان اللہ تعالیٰ نے جب بھی آ پکو موقع دیا آ پ کچھ نہ کچھ کر دکھاؤ گی،کیونکہ آپ میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ موجود ہے ۔اساتذہ کرام کی دعاؤں اور مان کے بھرم نے میرے کاندھوں پر اخلاقی بوجھ دھر دیا تھا۔جب ارادے پاکیزہ اور نیت صاف ہو تو رب پاک کی طرف سے غیبی مدد انسان کا ہاتھ تھام لیتی ہے اور ایسا ہی ہوا ان خوابوں کی تکمیل میں ایک غیبی مدد کی شکل میں نیک دل انسان نے میری ڈھارس بندھائی.وہ اس وقت کی ڈپٹی ڈی سی او شائستہ فیض تھیں۔انہوں نے سکول کا دورہ کیا تو ان کی زیرک نگاہوں نے میری آنکھوں کے پیچھے چھپی حسرتوں کو بھانپ لیا تھا۔یقینا عمارت کی زبوں حالی اور میرے دل کا درد اپنا المیہ بیان کر رہا تھا ۔
انہوںنے درد دل رکھنے والی ایک این جی او "سانجھ پریت” کو میرے سکول کی بحالی پر آ مادہ کیا۔کچھ اپنی مدد آپ، کچھ وسائل کا استعمال اور بالخصوص سانجھ پریت کے تعاون کے باعث آ ج وہی کھنڈرات اپنی عظمت رفتہ اور شوکت پارینہ کو چھو رہے ہیں.اس عمل کو پورا کرنے میں سانجھ پریت کی طرف سے کلثوم فرید کو خراج تحسین پیش نہیں کرنا کم ظرفی ہو گی۔جس نے قدم قدم پر فنڈز کو استعمال کے حوالے سے بھرپور تعاون کیا.
آ ج پھر طلبہ کے ہاتھوں میں کتابیں اور آ نکھوں میں چمک لوٹ آ ئی ہے ۔آ ج پھر یہاں کے غریب با سیوں نے اپنی نسلوں کے درخشاں مستقبل کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے ہیں۔آ ج پھر مہکتی فضاؤں میں ترانے کی آ واز گونجتی ہے۔آج پھر سکول کی فضاء بچوں کے قہقہوں سے مہمیز ہے۔
میں اور میراسٹاف سمجھتا ہے کہ یہ تو ابھی خواب کی ابتداء ہے۔ہمیں دور تک سفر کرنا ہے،ہمیں ستاروں پر کمند ڈالنی ہے،ہمیں چاند پر قدم رکھنا ہےاور اپنے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
ہم اب بھی چشم براہ ہیں،درد دل رکھنے والے کسی ایسے مسیحا کی جو ہماری باقی ماندہ ضروریات کے حل کے لیے ہماری معاونت کر سکے۔میں مقامی سیاستدانوں،مخیر حضرات اور محکمہ تعلیم کے زمہ داران سے خصوصی اپیل کروں گی کہ وہ آ ئیں اور اس کار خیر میں ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
آ خر میں مشکور ہوں اپنی محسن شائستہ صاحبہ کی،سانجھ پریت کے زمہ داران اور ان تمام سٹیک ہولڈرز کی جنہوں نے ہماری مالی اور اخلاقی معاونت کی۔
اللہ تعالیٰ ان سب کواجر عظیم سے نوازے.آمین