سید خالد جاوید بخاری
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے۔ پاکستان میں دو بڑے تعلیمی دھارے رائج ہیں، جن میں ایک روایتی نظام (میٹرک اور ایف ایس سی)، اوردوسرا غیر ملکی نظام (کیمبرج یعنی او لیولز اور اے لیولز) ہے. یہ دونوں نظام نہ صرف نصاب اور طریقہ تدریس میں مختلف ہیں بلکہ ان کے نتائج اور سماجی اثرات بھی الگ الگ ہیں۔ ایک طرف روایتی تعلیم سستی اور عام فہم ہے، تو دوسری طرف کیمبرج مہنگی لیکن عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تقریباً سولہ ہزار پاکستانی طلباء کیمبرج کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور صرف فیسوں کی مد میں تقریباً سات سو پچاس ملین روپے برٹش کونسل کو ادا کیے جاتے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تعلیم برطانیہ کی ساتویں بڑی برآمدی صنعت ہے جس کی مالیت چودہ ارب پاؤنڈز ہے۔ایک پرچے کے لیے برٹش کونسل پچیس سے اٹھائیس ہزار روپے وصول کرتا ہے، جبکہ مقامی تعلیمی بورڈ صرف گیارہ سو سے دو ہزار روپے لیتے ہیں۔یہ فرق معاشی طور پر بوجھل ضرور ہے، لیکن والدین کی ایک بڑی تعداد پھر بھی کیمبرج کو ترجیح دیتی ہے۔
کیمبرج نظام بچوں میں تنقیدی سوچ (کریٹیکل تھنکنگ) پیدا کرتا ہے، انہیںرٹنے کے بجائے تصورات (کانسپٹس) کو سمجھنے پر زور دیتا ہے۔اس کے علاوہ طلباء میں لیڈرشپ، فیصلہ سازی اور خود اعتمادی کو فروغ دیتا ہے، نیز نمبرات کے بجائے عملی زندگی کی تیاری کو اہمیت دیتا ہے۔
اس کے مقابلے میں روایتی نظام میںزیادہ تر رٹنے (رٹہ کلچر) پر مبنی ہے، بچوں کو نصاب سے ہٹ کر سوچنے کا موقع کم ملتا ہے۔کامیابی کا معیار صرف نمبرات اور گریڈز پر مبنی ہونے کے ساتھ طلباء کو محدود سوچ اور مسابقت کی دوڑ تک مقید کر دیتا ہے۔
کیمبرج کے طلباء خود کو زیادہ بااعتماد، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور قائدانہ صلاحیتوں سے لیس محسوس کرتے ہیں۔
والدین کے مطابق یہ نظام تعلیم بچوں کو ’’زر خرید غلام‘‘ کے بجائے معاشرے کا رہنما بناتا ہے۔اس کے برعکس میٹرک اور ایف ایس سی کے طلباء محض نوکری کی دوڑ اور امتحانی نمبرات کے محتاج بن جاتے ہیں، جو کہ طویل المدتی کامیابی کے لیے ناکافی ہے۔
میرے جیسے بہت سے افراد نے یہ محسوس کیا ہے کہ کیمبرج کے طلباء کی گفتگو، سوچ اور اعتماد روایتی نظام کے طلباء سے کہیں آگے ہوتا ہے۔ایک والدہ نے کہا: ’’میں اپنے بچوں کو او لیولز اس لیے کروا رہی ہوں تاکہ وہ معاشرے میں راہنما بن سکیں‘‘۔ یہ جملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ والدین کی ایک بڑی تعداد تعلیم کو مستقبل کی قیادت کے ساتھ جوڑ کر دیکھتی ہے۔
اگر دونوںنظام تعلیم کا تقابلی جائزہ لیںتو کیمبرج نظام تعلیم میںاخراجات بہت زیادہ (ہزاروں روپے فی پرچہ)، اسی وجہ سے معیارِ تعلیم تصوراتی، تحقیقی اور عملی ہے، اور اسی لئے یہ نظام ایلیٹ اور مڈل کلاس کی ترجیح ہے، جو بچوںمیںذہنی نشوونما کے ساتھ،قیادت کی صلاحیتیںپیدا کرتا ہے،اس طرحطلبہ میں تنقیدی سوچ اور خود اعتمادی بیدار ہوتی ہے، اور طلبہ کے عالمی ربط بڑھنے کے ساتھ ان کی تعلیم بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ ہوتی ہے.
اس کے مقابلے میںروایتی نظام تعلیم میں اخراجات کم (ہزار سے دو ہزار فی پرچہ) ہے، اس طرح بنیاد رٹہ کلچر ہونے کی وجہ سے نصابی محدودیت ہے اور اس نظام کی طرف رجحان عوامی سطح پر عام ہے، جبکہ طلبہ میںنمبرات کی دوڑ اور محدود سوچ ہے اور انہی وجوہات کی بناء پر یہ نظام تعلیم مقامی حد تک محدود ہے.
پاکستان میں نظام تعلیم کو بہتر کرنے اور طلبہ کو بین الاقوامی طور پر مقابلے کے لئے تیار کرنے کے لئے پاکستانی نظام تعلیم کو از سر نو ترتیب دینا چاہیے تاکہ وہ صرف رٹنے تک محدود نہ رہے۔نصاب میں تنقیدی سوچ، تحقیقی سرگرمیاں اور عملی تربیت شامل کی جائے۔ کیمبرج کے ماڈل سے رہنمائی لے کر میٹرک اور ایف ایس سی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔والدین کے لیے یہ فیصلہ ان کی مالی حیثیت پر منحصر ہے، لیکن اگر استطاعت ہو تو بچوں کو کیمبرج کی طرف بھیجنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان میں روایتی اور کیمبرج نظامِ تعلیم دو الگ دنیاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کیمبرج مہنگا ضرور ہے لیکن طلباء کو تنقیدی سوچ، اعتماد اور قیادت جیسی صلاحیتیں دیتا ہے۔ روایتی نظام تعلیم کو اگر اصلاحات کے ذریعے جدید خطوط پر استوار کر دیا جائے تو نہ صرف یہ طبقاتی فرق کم ہو گا بلکہ طلباء کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بھی بنایا جا سکے گا۔
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔