کراچی:مذہبی جماعت کے کارکنوں کے ہجوم نے 46 سالہ لئیق چیمہ، جو اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھتا تھا، کو صدر کے موبائل مارکیٹ کے قریب پریڈی پولیس سٹیشن کے دائرہ اختیار میں عبادت گاہ کے باہر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، مقتول ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ گیا۔
واقعہ اس وقت پیش آیا جب مذہبی جماعت کے کارکنوں نے ہفتہ وار احتجاجی مظاہرہ کیا۔ عینی شاہدین اور پولیس کے مطابق، ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی مذہبی جماعت کے کارکن ہر جمعے کو مذکورہ عبادت گاہ کے باہر جمع ہوتے ہیں۔
ڈی آئی جی سید اسد رضا نے بتایا کہ کراچی کے دیگر علاقوں جیسے شاہ لطیف، سورجانی اور کھوکھراپار میں گزشتہ واقعات کے پیش نظر پہلے ہی اس علاقے میں پولیس تعینات کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے عبادت گاہ کے اندر موجود دیگر 40 افراد کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔
یہ واقعہ صدر کے آٹو پارٹس مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ پریڈی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او شبیر حسین نے بتایا کہ متاثرہ لئیق چیمہ مذہبی جماعت کے کارکنوں کی ہاشو سینٹر کے قریب ویڈیوز بنا رہا تھا کہ ہجوم نے اس پر حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔
کمیونٹی کے ترجمان عامر محمود نے کہا کہ پاکستان میں کچھ عرصے سے ان کی کمیونٹی کے خلاف مسلسل نفرت پھیلائی جا رہی ہے اور ان کے قتل کے کھلے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کراچی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "گزشتہ کئی ماہ سے مذہبی جماعت کے کارکن ہماری عبادت گاہوں کو گھیرے میں لے رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ انتظامیہ الٹا ان کے خلاف بے بنیاد شکایات پر مقدمات درج کر رہی ہے، ان کی قبروں اور عبادت گاہوں کو تباہ کر رہی ہے اور حملوں کے دوران خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہماری کمیونٹی کےلوگ ہمیشہ پرامن رہے ہیں اور اپنے گھروں میں خاموشی سے اپنے مذہبی فرائض انجام دے رہے ہیں، لیکن پھر بھی کمیونٹی کے افراد کو بلاوجہ گرفتار کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی کی اس عبادت گاہ پر 2 فروری 2023ء اور 4 ستمبر 2023ء کو بھی حملہ کیا گیا تھا اور اس کے میناروں کو بھی گرایا گیا تھا۔
عامر محمود نے کہا کہ "پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 میں شہریوں کو مذہبی آزادی کا حق دیا گیا ہے، لیکن تشدد پسند عناصر کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اور انتظامیہ انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔” انہوں نے مطالبہ کیا کہ لئیق احمد چیمہ کے قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
ایس ایچ او شبیر حسین نے تصدیق کی کہ عبادت گاہ کے اندر موجود دیگر افراد کو جیل وین کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
اس سے قبل انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (HRCP) کی حالیہ رپورٹ میں بھی مذہبی اقلیتوں کے گھروں اور عبادت گاہوں پر ہجوم کے حملوں میں اضافے کی نشاندہی کی گئی تھی۔