اسلام آباد: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی آج جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ شہری آزادیوں میں تشویشناک کمی، امنِ عامہ کی بگڑتی صورتحال، اور وفاقی نظام پر واضح دباؤ کی نشاندہی کرتی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال 2024ءکے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق، فروری 2024ء کے عام انتخابات انتخابی دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہے۔ سیاسی غیر یقینی صورتحال کے ماحول میں ایک بڑی سیاسی جماعت کا مستقبل اور اس کی مخصوص نشستوں کی تقسیم غیر واضح رہی۔ نئی آنے والی حکومت نے جلد بازی میں کئی ناقص قوانین منظور کر کے غیر جمہوری عناصر کو گنجائش فراہم کی۔
رپورٹ کے مطابق، 2024ء میں شدت پسندی میں تشویشناک اضافہ ہوا، اس سے منسلک ہلاکتوں کی تعداد 2,500 سے تجاوز کر گئی۔ ان میں سے زیادہ تر حملے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔ کم از کم 24 افراد ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے، جن میں سے بعض واقعات، جیسے کہ سوات اور سرگودھا میں، کا تعلق توہینِ مذہب کے الزامات سے تھا۔
رپورٹ کی رونمائی کے موقع پر، ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے ریاستی جبر کی جانب توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ 2024ء میں جبری گمشدگی کے کم از کم 379 نئے مقدمات، توہینِ مذہب کے الزام میں دو ماورائے عدالت قتل، اور صرف سندھ و پنجاب میں 4,864 مبینہ پولیس مقابلے رپورٹ ہوئے۔
ایچ آر سی پی کی سابق چیئرپرسن حنا جیلانی نے کہا کہ جبری گمشدگی کسی بھی صورت میں قابلِ جواز نہیں — خواہ جنگ ہو یا بغاوت — اور کسی بھی مقصد کے لیے تشدد یا دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی برادری کا مطالبہ ہے کہ تشدد کے ہر واقعے سے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔
کم از کم 1,200 افراد کو توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت قید کیا گیا، جنہیں مبینہ طور پر دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر نے سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد شیئر کرنے پر اکسایا۔ احمدی برادری نے مذہبی بنیادوں پر کم از کم چھ قتل، اور 200 سے زائد قبروں و عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی اطلاع دی، جو ریاست کی دائیں بازو کی جماعتوں کے سامنے پسپائی اور شدت پسندی میں اضافے کی علامت ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر مسلسل پابندی، سیاسی موضوعات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی گرفتاریاں، جلسے جلوسوں کی روک تھام کے لیے دفعہ 144 کا بار بار نفاذ، پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی، اور احتجاجی مظاہروں کے خلاف غیر متناسب—بلکہ بعض اوقات مہلک—طاقت کا استعمال، اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست تنقید یا اختلافِ رائے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
ایچ آر سی پی کی شریک چیئرپرسن منیزے جہانگیر نے 2024ء میں حکومتی قانون سازی اور اظہارِ رائے کی آزادی پر اس کے اثرات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری عہدیداروں کو عام شہریوں کی جائز تنقید سے استثنا نہیں دیا جانا چاہئے۔
ملک بھر میں 24 لاکھ مقدمات زیر التواء ہونے کے باعث عدالتی نظام پر شدید بوجھ رہا۔ اگرچہ، عدالتوں نے کم از کم 174 افراد کو سزائے موت سنائی، لیکن کسی بھی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔ جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کا تناسب تقریباً 228 فیصد رہا۔
ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے نشاندہی کی کہ کان کن، سینیٹیشن ورکرز اور پولیو ورکرز شدید خطرات سے دوچار رہے اور ان شعبوں میں کم از کم 172 ہلاکتیں ہوئیں۔ خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد بدستور جاری رہا: غیرت کے نام پر قتل کے کم از کم 405، جنسی زیادتی کے 4,175، گھریلو تشدد کی بناء پر قتل کے 1,641، اور بچوں پر تشدد کے 1,630 واقعات رپورٹ ہوئے۔ حکومت نے افغان شہریوں کی واپسی کا عمل جاری رکھا، تاہم یہ خدشات برقرار رہے کہ یہ بے دخلیاں رضامندی اور وقار سے متعلق عالمی معیارات پر پورا نہیں اترتیں۔ تعلیم و صحت کی صوتحال ناقص رہی، جبکہ سال کے مختلف حصوں میں شدید موسم اور آلودہ فضا نے صورت حال کو مزید ابتر دیا۔
ایچ آر سی پی اسلام آباد کی وائس چیئر نسرین اظہر نے تقریب کے اختتام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم نے عدالتی امور میں انتظامیہ کی مداخلت کو بڑھا دیا ہے۔