Suprm Crt 2

سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے انتظامی اختیارات کے استعمال کیخلاف درخواست پر سماعت

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بنچ نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی آئینی درخواست پر سماعت کی.

لاہور ہائیکورٹ کا جواب جمع ہو چکا ہے، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلیغ الزمان

جی جواب جمع ہو چکا ہے، لاہور ہائیکورٹ نے تسلیم کر لیا ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا، تاہم یہ افسوسناک ہے کہ لاہور ہائیکورٹ جیسا ادارہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا دفاع بھی کر رہا ہے، میاں داؤد ایڈووکیٹ

جب تک ہائیکورٹ کے ملازمین کے رولز نہیں بنیں گے، ایسا ہی چلے گا، ہمیں اپنے اختیارات کو ہضم کرنا چاہیے، جسٹس مندوخیل

لاہور ہائیکورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ بعض ملازمین کو پسند ناپسند کی بنیاد پر لاکھوں کروڑوں روپے تقسیم کئے گئے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ آفس میں تعینات ایک ملازم کو ایڈوانس انکریمنٹ کی آڑ میں لاکھوں، کروڑوں روپے دیئے گئے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ آفس کے ایک افسر کو ایک کروڑ روپے تک ایک ہی دن میں نوازا گیا، میاں داؤد ایڈووکیٹ

لاہور ہائیکورٹ کے جواب کے مطابق ایک شخص کیلئے ایک ہی دن تین تین نوٹیفیکشنز ہوئے، اور لاہور ہائیکورٹ نے جواب میں الزامات سے انکار نہیں کیا، لاہور ہائیکورٹ نے درخواستگزار کے الزامات کو بظاہر تسلیم کر لیا ہے،جسٹس حسن اظہر رضوی

صرف یہی نہیں بلکہ آئینی درخواست کے پیراگراف 5 کا تو جواب ہی نہیں دیا گیا، میاں داؤد ایڈووکیٹ

جسٹس محمد علی مظہر نے آئینی درخواست کا پیراگراف 5 خود پڑھا

آئینی درخواست کا پیراگراف 5 لاہور ہائیکورٹ کے 2 سینئر افسران سے متعلق ہے، میاں داؤد ایڈووکیٹ

دونوں افسران کیخلاف کرپشن کی بنیاد پر ریگولر انکوائری کے بعد سخت سزا کی سفارش کی گئی،
انہی دونوں افسران نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل اپنے خلاف سفارشات ختم کرا لیں، دونوں افسران نے اپنے خلاف سفارشات ختم کرانے کے بعد فائل بھی گم کرا دی، دونوں افسران شہباز اشرف اور شہباز انور جو ایک دن قبل قابل سزا تھے، انہیں بھی آخری دن چیف جسٹس نے ایڈوانس انکریمنٹس دیئے، میاں داؤد ایڈووکیٹ

یہ صورتحال تو افسوسناک ہے، جسٹس محمد علی مظہر

ہماری عدلیہ ہمارا سونا ہے، اگر سونا ہی زنگ پکڑنے لگے تو لوہے کا کیا قصور، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ آفس کا ایک ملازم ایسا ہے جس کی تنخواہ مسلسل ایڈوانس انکریمنٹس ملنے کے بعد ہائیکورٹ کے جج کے برابر پہنچ چکی ہے، ایڈوانس انکریمنٹس کے اصول نے لاہور ہائیکورٹ کے تمام ملازمین کے سروس سٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے، جو ملازم چیف جسٹس آفس میں تعینات ہونے سے رہ گیا، اسکی تنخواہ ہمیشہ کم ہی رہے گی، میاں داؤد ایڈووکیٹ

درخواست میں شواہد صرف لاہور ہائیکورٹ سے متعلق ہیں، بہتر ہوگا درخواست کو صرف لاہور ہائیکورٹ تک محدود رکھیں، جسٹس محمد علی مظہر

آئینی بنچ کی درخواستگزار کو درخواست میں ترمیم کی ہدایت

آئینی بنچ کی توجہ لاہور ہائیکورٹ کے جواب کے پیراگراف ایک کی طرف دلوانا چاہتا ہوں،
میری درخواست اور اسکے ساتھ منسلک شواہد قابل سماعت تھے تب ہی تو آئینی بنچ نے نوٹس کیا، میاں داؤد ایڈووکیٹ

درخواست کے ساتھ آپ نے کم شواہد لگائے تھے لیکن لاہور ہائیکورٹ نے جواب میں سارے شواہد لگا دیئے، جج آئینی بینچ

لاہور ہائیکورٹ نے اپنے جواب کے پیراگراف ایک میں آئینی بنچ کی طرف سے نوٹس کرنے کو بھی بہت برا منایا ہے، لاہور ہائیکورٹ نے اتنا برا منایا کہ مطالبہ کیا ہے کہ درخواست گزار میاں داؤد کو درخواست دائر کرنے پر جیل میں ڈالا جائے، میاں داؤد ایڈووکیٹ

تو پھر میاں صاحب دوسری آپشن کے بارے میں کیا خیال ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا میاں داؤد سے مسکراتے ہوئے استفسار

اس بنچ کا ہر حکم سر آنکھوں پر، میاں داؤد ایڈووکیٹ کا جسٹس جمال مندوخیل کو جواب

آئندہ سماعت پر اسکا جائزہ لیں گے، سربراہ آئینی بنچ جسٹس امین الدین خان

لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے کون وکیل پیش ہوا ہے؟ جسٹس شاہد بلال حسن کا استفسار

لاہور ہائیکورٹ نے الگ سے وکیل نہیں کیا، پنجاب حکومت کے وکیل کو ہی معاونت کی ہدایات ہیں، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلیغ الزمان

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل تو سپریم کورٹ کی معاونت کیلئے ہیں، لاہور ہائیکورٹ اپنے دفاع کیلئے الگ سے وکیل کرے، جسٹس شاہد بلال حسن

عدالت نے کیس کی مزید سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس میں تمام ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کے انتظامی اختیارات کو چیلنج کیا گیا ہے اور لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔

درخواست گزار، میاں داؤد، نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میرٹ اور قانونی اصولوں کو نافذ کرے، جو کہ تمام اداروں بشمول عدلیہ کے لیے معیاری توقعات ہیں۔

سپریم کورٹ کے لاہور رجسٹری میں دائر کی گئی درخواست میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز اور پانچوں ہائی کورٹس کے رجسٹرارز کو جوابدہ فریقین بنایا گیا ہے۔

داؤد نے سپریم کورٹ کا دھیان مبینہ بدعنوانیوں، قومی فنڈز کے غبن، اقربا پروری، اور کچھ ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی جانب سے ریٹائرمنٹ سے پہلے اختیاری اختیارات کے تحت آئین کے خلاف اقدامات کی طرف دلایا ہے۔

انہوں نے خاص طور پر سابق چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کے معاملے پر روشنی ڈالی، جہاں الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے قریبی افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے متعدد نوٹیفکیشنز جاری کیں۔ داؤد کے مطابق، سابق چیف جسٹس بھٹی نے ریٹائرمنٹ سے پہلے متعدد ملازمین کو ترقیاں، تنخواہ میں اضافے، تبادلوں کے احکامات، اور توسیعی چھٹیاں دیں، جبکہ قواعد اور انتظامی پالیسیوں کو نظرانداز کیا گیا۔

مزید یہ کہ داؤد کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس بھٹی نے کئی ملازمین کے خلاف سزاؤں کو عدالتی احکامات کی بنیاد پر واپس لے لیا، حتیٰ کہ ان ملازمین کے خلاف سزائیں بھی معطل کر دیں جن کے خلاف سروس ٹریبونلز میں اپیلز زیر التواء تھیں، جس سے ان کے کام کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

داؤد کا دعویٰ ہے کہ تقریباً 20 ملازمین، جن میں سابق چیف جسٹس کے پرنسپل سیکرٹری سے لے کر نچلے درجے کے ملازمین شامل تھے، کو دو اضافی تنخواہیں دی گئیں۔ سابق رجسٹرار شیخ خالد بشیر اور سابق رجسٹرار عرفان سعید، کو بھی دو دو اضافی تنخواہیں دی گئیں۔

اس کے علاوہ، سابق چیف جسٹس نے اپنے کورٹ ایسوسی ایٹ (ریڈر) کو قانونی طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر تنخواہ سمیت چار سالہ سٹڈی لیو منظور کی۔ مزید یہ کہ ریڈر کی اہلیہ، جو سول جج کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں، کو بھی اسی طرح سٹڈی لیو دی گئی۔

داؤد نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کے اختیاری اختیارات کو منظم کرے تاکہ بدعنوانی، اقربا پروری اور غیرقانونی اقدامات کو روکا جا سکے۔

انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ عدالت سابق چیف جسٹس امیر بھٹی کے دورِ اخیر میں جاری کردہ تمام نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار دے تاکہ قومی خزانے کو بڑے نقصان سے بچایا جا سکے۔

داؤد نے مزید مطالبہ کیا کہ تمام اضافی تنخواہیں، جو غلط طریقے سے دی گئیں ہیں، واپس لی جائیں اور قومی خزانے میں جمع کرائی جائیں۔ انہوں نے سٹڈی لیوز کے خاتمے اور سزاؤں کو معطل کرنے کے احکامات کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں