WhatsApp Image 2025 03 05 at 12.02.31

نامردی کے الزام پر شوہر کے طبی معائنہ کا عدالتی حکم غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار

پشاور: خاتون کی جانب سے جنسی ضعف یعنی نامردی شوہر کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کے حوالے سے عدالت عالیہ پشاور کا ایک اہم اور تاریخ ساز فیصلہ جاری

فاضل عدالت میں‌مسماۃ (ث) نے اپنے شوہر ٰ(ع) کے خلاف عائلی عدالت میں شوہر کے خلاف نامردی، عدم ادائیگی نان و نفقہ اور ظلم و جبر روا رکھنے پر تنسیخ نکاح کا دعوی دائر کیا ۔

مقدمہ میں‌شوہر کی جانب سے جواب دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات بالخصوص جنسی ضعف کے الزام کو مسترد کیا ، جس پر مدعیہ خاتون نے عدالت کو درخواست دی کی میرے شوہر کا طبی معائنہ کرایا جائے کہ وہ جنسی ضعف کا شکار ہے یا نہیں،

جس پر شوہر کی جانب سے اس درخواست کے خلاف کافی دلائل دیئے گئے لیکن عائلی عدالت نے 28 ستمبر 2021ء کو درخواست گزار کے شوہر کو میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا اور عدالت نے ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر ہسپتال سیدو شریف کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو طبی معائنہ برائے جانچ پڑتال جنسی ضعف و عدم ضعف کے لئے میڈیکل بورڈ بنانے کے احکامات بھی جاری کر دئیے اور مقررہ تاریخ پر یا اس سے پہلے رپورٹ جمع کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔

اس 28 ستمبر 2021ء کے حکم کو شوہر نے پشاور ہائی کورٹ ، مینگورہ بنچ (دارالقضاء)، سوات میں چیلنج کر دیا ۔

ایپیلٹ عدالت یعنی پشاور ہائی کورٹ مینگورہ بنچ (دارالقضاء)، سوات نے اس معاملہ کےحل کے لئے تین سوالات رکھے؛ کہ اگر کسی شوہر پر اگر بیوی کی طرف سے جنسی ضعف (نامردی) کا الزام لگے تو شوہر کے جنسی ضعف کی جانچ کیسے ہو گی؟ اور کیا عائلی عدالت کے 28 ستمبر 2021ء کے حکم نامہ میں دیا گیا طریقہ کار کہ جس میں مدعا علیہ کو میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا تھا ، ملکی قانون کے مطابق ہے یا نہیں؟ اور کیا مدعا علیہ کے ساتھ ملکی قانون کے مطابق سلوک کیا گیا یا نہیں ؟

ایپیلٹ عدالت نے ان تینوں سوالات کے جوابات تحریر کرتے ہو ئے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ایپیلٹ عدالت نے تنسیخ نکاح ایکٹ ، 1939 ، کے سیکشن 2 کی شق 5 اور 9 اور شق 9 کے ذیلی شق C کا حوالہ دیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ؛ ایک خاتون جس کا نکاح اسلامی شریعت کے مطابق ہوا ہو ، اپنے تنسیخ نکاح کی ڈگری عدالت سے دیگر بنیادوں کے ساتھ ساتھ اس بنیاد پر بھی لے سکتی ہے کہ اس کا شوہر شادی کے وقت سے لے کر تاوقت جنسی ضعف (نامردی) کا شکار ہے، لیکن مذکورہ بنیاد پر دعوی دائر کرنے کے بعد عدالت شوہر کے درخوست پر اسکو ایک سال کی مہلت دے گی کہ شوہر اس عرصہ ایک سال میں عدالت کو مطمئن کرے کہ وہ جنسی طور پر ضعیف (نامرد) نہیں ہے ۔

اسکے ساتھ ایپیلٹ عدالت نے ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی کتاب مجموعہ قوانین اسلام پر انحصار کرکے یہ نیجہ اخذ کیا ہے کہ مذکورہ قانون میں جو طریقہ کار دیا گیا ہے بعینہ یہی طریقہ کار اسلامی قامون میں بھی درج ہے۔

مندرجہ بالا بحث کے بعد عدالت نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عائلی عدالت کا یہ فیصلہ کہ اپیل کنندہ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہو، نہ صرف غیر قانونی بلکہ قانون کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی بھی ہے۔

ایپیلٹ عدالت نے عائلی عدالت کے فیصلے کے ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لیا ہے، یعنی کہ ریکارڈ کے مطابق اپیل کنندہ یعنی شوہر نے مسماۃ عزیزہ بی بی کے ساتھ دوسری شادی کی ہے اور اس سے ایک بیٹا بھی ہے سو اگر یہ مذکورہ بالا طریقہ کار اپنایا گیا تو اس سے اس بچے کے جواز پر بھی سوال اٹھے گا اور اسی وجہ سے اپیل کنندہ/مدعا علیہ کو سماجی بے توقیری کا سامنا کرنا پڑے گا اور ساتھ ساتھ اپیل کنندہ/مدعا علیہ سماجی انصاف کے آئینی و قانونی حق سے محروم ہوجائیگا ۔

ایپیلٹ عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ آئین پاکستان کے دیباچہ، جو کہ اسکا کا ایک اہم اور مستقل جز ہے، کے تحت ہر شہری کو اسلام کے مطابق سماجی انصاف کا حق ہے اور آئین کے دفعہ 4 کے مطابق ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائیگا اور کسی شخص کو اس کام کے کرنے پر مجبور نہیں کیا جائیگا جس کو کرنے کا حکم قانون نے نہ دیا ہو ۔

لہذا ایپیلٹ عدالت نے یہ اخذ کیا کہ عائلی عدالت نے جنسی ضعف کے تشخیص کا جو طریقہ کار اپنایا ہے وہ قانون میں کہیں مذکور نہیں اور اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپیل کنندہ/مدعا علیہ کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ نہیں کیا گیا کیونکہ اس کو ایسے کام پر مجبور کیا گیا کہ جس کا حکم قانون نہیں دیتا ۔

ایپلیٹ عدالت نے عائلی عدالت-I سوات کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مذکورہ عدالت کو حکم دیا کہ اس معاملہ کو قانون کے مطابق چلائے اور شوہر کے جنسی ضعف ، اگر ہے ، تو اسکی جانچ کے لئے مذکورہ بالا بحث میں قانون کے دیئے گئے درست طریقہ کار کو اپنائے تاکہ فریقین کے درمیان قضیہ کی تحلیل عدل و انصاف کے مطابق ہو ۔

یہ انتہائی اہم فیصلہ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس محمد اعجاز خان نے تحریر کیا ہے اور اس کو W.P NO.932-M/2021 پر پڑھا اور دیکھا جاسکتا ہے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں