قمر جہاں
اور دو زندگیاں جھوٹے وقار کی بھینٹ چڑھ گئی، یوں تو جہاں ایک جانب ہم جدت ازادی اظہار ازادی رائے ازادی فیصلہ کی بات کرتے ہیں وہیں کچھ قبائل اب بھی "غیرت” کے نام پر صدیوں پرانے رسم و رواج کو قانون اور انسانیت پر فوقیت دیتے ہیں۔ بلوچستان میں پیش آنے والا تازہ ترین واقعہ اسی تاریک سوچ کا ایک اور ثبوت ہے جہاں قانون نہیں، ماورہ عدالت قبائلی پنچایت نے فیصلہ کرکے، اور دو زندگیاں ختم کر دی گئیں۔
یہ واقعہ عید الاضحی سے تین روز قبل مارگٹ، کوئٹہ کے قریب پیش آیا، جہاں بانو نامی شادی شدہ خاتون اور احسان سمالانی نامی شخص کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ بانو کا تعلق ساتکزئی اور احسان کا تعلق سمالانی قبیلے سے تھا۔ دونوں براہوی زبان بولنے والے تھے اور ایک ہی علاقے کے رہائشی تھے۔
بانو کی دس سال سے شادی شدہ زندگی تھی، اور وہ چار بچوں کی ماں تھی۔ دسمبر 2024ء میں وہ اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر احسان کے ساتھ چلی گئی۔ دونوں نے تقریباً تین ماہ ساتھ گزارے، لیکن بانو پر احسان کے ہاتھوں تشدد کے الزامات سامنے آئے، جس سے تنگ آ کر وہ واپس آ گئی۔ اپنے قبیلے میں اس نے معافی مانگی، اور اس کا اپنے شوہر کے ساتھ راضی نامہ ہو گیا۔
واپسی کے بعد ساتکزئی قبیلے نے سمالانی قبیلے سے مطالبہ کیا کہ ان کی عزت پامال ہوئی ہے، لہٰذا احسان کو مارا جائے۔ جب یہ معاملہ مارگٹ کے ایک مقامی سردار کے ڈیرے پر پہنچا تو دونوں قبیلوں کے افراد وہاں موجود تھے۔ کشیدگی بڑھنے پر مشترکہ قبائلی فیصلہ کیا گیا کہ اگر احسان قتل ہوگا، تو بانو بھی اس میں برابر کی شریک ہے اور دونوں کو مارا جائے گا۔
پھر اجتماعی طور پر گولیاں برسائی گئیں۔ بانو کو گولی مارنے والا اس کا سگا بھائی، جلال، تھا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بانو کا شوہر اور بچے اس قتل کے حق میں نہیں تھے، لیکن قبائلی دباؤ کے تحت خاموش ہو گئے۔
واقعے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے 12/13 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے یہ تمام افراد لڑکی (بانو) کے قبیلے ساتکزئی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سردار شیر باز ساتکزئی بھی شامل ہیں، جنہیں گرفتار کر کے تھانے منتقل کر دیا گیا ہے۔
پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے، لیکن اس میں کچھ تکنیکی خامیاں تھیں جنہیں اب درست کیا جا رہا ہے۔ مقدمے کی مدعی بلوچستان حکومت ہے، دونوں قبائل میں سے کوئی بھی فریق خود مدعی نہیں بنا۔
یہ سوالات ہمیں آج بھی جھنجھوڑتے ہیں: کیا آج بھی غیرت کے نام پر اجتماعی فیصلے، قانون اور عدالت سے بالاتر ہیں؟ ایک عورت جو خود واپس آ چکی تھی، شوہر سے صلح ہو چکی تھی، کیا اس کا قتل ضروری تھا؟ کیا بھائی کا بہن پر گولی چلانا "غیرت” ہے یا سفاکی؟
بانو نہ صرف ایک ماں تھی، بلکہ ایک ایسی عورت بھی تھی جو ایک بار غلطی کے بعد واپسی کا راستہ چن چکی تھی۔ مگر اسے دوسرا موقع نہیں دیا گیا کیونکہ اس کے قبیلے کے لیے "غیرت” کا مطلب رحم سے زیادہ انتقام تھا۔
پولیس کی مدعیت میں ایف آئی آر اور صوبائی حکومت بذاتِ خود اس کیس میں فریق بن چکی ہے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے وعدوں کے مطابق عوام یہ امید رکھتے ہیں کہ مجرمان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی، تاکہ نہ صرف فرسودہ روایات کی حوصلہ شکنی ہو، بلکہ بلوچستان کے عوام کو تحفظ اور انصاف کا احساس بھی مل سکے۔۔۔