Untitled 2025 08 10T151906.930

زخمی یادداشتیں: 1947ء کی ہجرت اور ملتان

سید خالد جاوید بخاری

تقسیمِ ہند 1947ء برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانی المیہ تھی، جس نے لاکھوں خاندانوں کو جلاوطنی پر مجبور کیا۔ ملتان جیسے کثیرالمذہبی شہر میں ہندو، سکھ اور مسلمان صدیوں سے ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے، مگر فسادات نے اس سماجی تانے بانے کو تار تار کر دیا۔ اس تحقیق میں ملتان سے ہندو اور سکھ برادری کی ہجرت، بھارت میں ان کی آبادکاری اور کامیابیاں، اور ساتھ ہی فسادات میں بھارت کے مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم اور ان کی پاکستان آمد کو تاریخی، سماجی اور انسانی زاویے سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ملتان، جسے "مدینۃ الاولیاء” کہا جاتا ہے، تاریخ میں ہمیشہ سے تہذیبی و مذہبی امتزاج کی علامت رہا ہے۔ یہاں ہندو مندر، سکھ گردوارے، مسلم درگاہیں اور بازار ایک دوسرے کے قریب موجود تھے۔ مگر 1947ء میں سیاسی تقسیم نے اس شہر کو بھی شدید فرقہ وارانہ فسادات اور ہجرت کے صدمے سے دوچار کیا۔
Untitled 2025 08 10T152444.812
ملتان کی کثیرالمذہبی فضا میں‌رچی بسی مذہبی ہم آہنگی کا عالم یہ تھا کہ یہاں ہندوؤں‌کے معروف اور بڑے مندر پراچین سورج کنڈ، پرم ہنس مندر، نرائن مندر تھے تو سکھ گردواروں گردوارہ صاحب پنچائتی، گردوارہ چہلی مستریاں موجود تھے اور مسلمان درگاہوں حضرت بہاؤالدین زکریاؒ، حضرت شاہ رکن عالم اور شاہ شمس تبریزؒ جیسی ہستیاں‌بھی موجود رہیں.

معاشی اشتراک یہ تھا کہ ہندو تاجر و بینکار تھے، تو سکھ زمیندار و ٹھیکیدار اور مسلمان کاریگر، زمیندار اور مذہبی پیشوا تھے، لیکن جون تا اگست 1947ء میں فسادات پھوٹ پڑے۔بھارت کے مشرقی پنجاب، دہلی اور اتر پردیش میں مسلم آبادی پر بھی شدید حملے ہوئے، گاؤں جلا دیئے گئے، مساجد مسمار ہوئیں، اور لاکھوں مسلمان بے گھر ہوئے۔ تو ملتان سمیت دیگر علاقوں‌میں‌ ہندو اور سکھ دکانوں پر حملے، مندر و گردواروں کی بے حرمتی، اور قتل عام ہوا۔

ملتان سے ہندو اور سکھ برادری کی ہجرت کے اعداد و شمار کے مطابق 1947ء کے وسط تک ملتان کے تقریباً 90 فیصد ہندو اور سکھ بھارت جا چکے تھے۔جن کی چھوڑی گئی چیزوں میں‌جائیدادیں، دکانیں، کھیت، مندر، گردوارے، ذاتی اور خاندانی یادیں شامل تھیں.

اس کے موجودہ آثار میں‌پنج محل روڈ، دولت گیٹ، پرم ہنس گلی اور حسین آگاہی میں پرانے ہندو و سکھ گھروں کے کھنڈرات اور نقش آج بھی ماضی کی گواہی دیتے ہیں۔

ملتان سے بھارت میں جا کر آبادکاری کرنے والی کی نمایاں خدمات میں‌تعلیم و تدریس کےمیدان میں‌پروفیسر کشور چندر ہنڈا تھے، جو اندور یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر تھے اور انہیں پدم شری ایوارڈ بھی دیا گیا.اس طرح‌ماسٹر بھولا ناتھ کھنہ، لدھیانہ میں "Khanna Public Schools” کے بانی بنے. صحت کے شعبہ میں‌ڈاکٹر گنگا رام ملہوترہ، دہلی میں "ملہوترہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ” کے بانی تھے اور ڈاکٹر پریم چند ٹھکرال، مہاراشٹرا ہیلتھ سروس کے ڈائریکٹر تھے.

شعبہ زراعت میں‌لچھمن داس تلریجا، جودھپور میں جدید زرعی فارمز کے بانی اور راجو مل ہیمراجانی، مدھیہ پردیش کے وزیر زراعت رہے.اس طرح‌تجارت و صنعت کے شعبہ جات میں‌بلراج کھیترپال، دہلی میں "Khetrapal Group of Industries” کے بانی، رمن لال وسندانی، ممبئی میں صنعتی فیکٹریوں کے مالک تھے.

وکالت و قانون میں‌جسٹس ہری کرشن سہگل، دہلی ہائیکورٹ کے جج رہے، جنہیں پدم شری ایوارڈ بھی ملا، ایڈووکیٹ دلیپ ناتھ مہاجن،ممبئی ہائیکورٹ میں آئینی مقدمات کے ماہر رہے.
Untitled 2025 08 10T151914.768
فسادات میں بھارت کے مسلمانوں کی ہجرت اور قربانیاں دیکھی جائیں‌تو ملتان کے ہندو اور سکھ جس المیے سے گزرے، اسی طرح بھارت کے مسلمان بھی 1947ء کے فسادات میں خوف اور جبر کا شکار ہوئے۔پنجاب (بھارت) میں: مسلم اکثریتی گاؤں جلائے گئے، ہزاروں مرد قتل ہوئے، خواتین اغوا ہوئیں۔دہلی میں: پرانے شہر کی مسلم آبادی پر مسلح حملے ہوئے، جامع مسجد کے گرد و نواح میں خونریزی ہوئی۔

مہاجرین میں وکلاء، پروفیسر، زمیندار اور تاجر شامل تھے، جنہوں نے پاکستان میں نئے سرے سے زندگی شروع کی۔دہلی اور امرتسر سے آنے والے مسلم وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ میں نام پیدا کیا۔اتر پردیش سے آنے والے مسلم استاد و پروفیسرز نے پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور میں خدمات دیں۔مسلمان صنعتکاروں نے کراچی اور فیصل آباد میں نئی فیکٹریاں قائم کیں۔

یادداشتوں کی خاموشی اس طرح‌نظر آتی ہے کہ چاہے وہ ملتان کے ہندو و سکھ ہوں یا دہلی و امرتسر کے مسلمان — دونوں کے بیانیے میں ایک مشترک پہلو ہے،جلاوطنی کا زخم، چھوٹی چھوٹی چیزوں سے جڑی یادیں، اپنے شہر کی گلیوں اور عمارتوں کے خواب، مگر افسوس، نصابِ تعلیم، سرکاری بیانیہ اور مقامی میوزیم — سب نے ان یادوں کو تقریباً بھلا دیا ہے۔

سال 1947ء کی ہجرت ایک یک طرفہ المیہ نہیں بلکہ دونوں طرف کے انسانوں کا سانحہ تھی۔ ملتان کے ہندو و سکھ بھارت میں کامیابیاں سمیٹ سکے، اور بھارت کے مسلمان پاکستان میں نئے سرے سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے۔ مگر دونوں طرف ان کے قصے، جذبات، اور زخم آج بھی اجتماعی یادداشت میں دبی ہوئی خاموش چیخوں کی صورت موجود ہیں۔

Untitled 2025 06 04T010448.935
خالد جاوید بخاری
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں