عورتوں کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، جو خواتین کی سماجی، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان چیلنجز پر غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے،جو آج بھی خواتین کو درپیش ہیں۔ خواتین کی آزادی اور مساوی حقوق کی جدوجہد کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ صدیوں پر محیط ایک طویل اور کٹھن سفر ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں خواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور ان کے ساتھ صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے.
عورتوں کے عالمی دن کی ابتدا 1908ء میں ہوئی جب نیویارک میں تقریباً 15 ہزار خواتین نے کم کام کے اوقات، بہتر تنخواہ اور ووٹ کے حق کے لیے مارچ کیا۔ اس کے بعد 1910ء میں کوپن ہیگن میں منعقدہ سوشلسٹ ویمنز کانفرنس میں کلارا زیٹکن نے تجویز دی کہ ایک ایسا عالمی دن ہونا چاہیے جو خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو نمایاں کرے۔ 1911ء میں پہلی بار یہ دن آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں منایا گیا اور اس وقت سے لے کر آج تک خواتین کے حقوق کی جدوجہد جاری ہے۔ تاہم، کیا واقعی خواتین کو وہ مقام حاصل ہو چکا ہے جس کی انہیں صدیوں سے تلاش تھی؟ اس سوال کا جواب زیادہ پیچیدہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کا متقاضی ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر، خواتین کو کم و بیش یکساں نوعیت کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے، مگر دنیا کے کئی خطوں میں آج بھی خواتین تعلیم سے محروم ہیں۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں غربت، ثقافتی رکاوٹیں، اور معاشرتی دباؤ خواتین کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور بعض افریقی ممالک میں اب بھی لاکھوں بچیاں سکول جانے سے محروم ہیں۔ اگرچہ خواتین اب مختلف شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کر رہی ہیں، لیکن اب بھی انہیں مساوی تنخواہ کا مسئلہ درپیش ہے.
خواتین کے خلاف تشدد ایک عالمی مسئلہ ہے۔ گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی اور ریپ جیسے جرائم اکثر رپورٹ نہیں کیے جاتے کیونکہ متاثرہ خواتین کو انصاف کے بجائے بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خواتین کے خلاف جرائم عام ہیں اور عدالتی نظام کی کمزوری کی وجہ سے مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔ دنیا کے کئی ممالک میں کم عمری کی شادی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔غربت،روایتی رسم و رواج، اور خاندانوں کے دباؤ کی وجہ سے کئی بچیوں کو ان کی مرضی کے خلاف کم عمری میں بیاہ دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی تعلیم اور بہتر زندگی کے مواقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ زچگی کے دوران اموات، غذائی قلت، اور نامناسب طبی سہولیات کی وجہ سے ہر سال لاکھوں خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ صحت کے شعبے میں خواتین کے مسائل کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں خواتین کی سیاسی شرکت مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ اگرچہ کئی خواتین سیاست میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن پارلیمان میں ان کی نمائندگی اب بھی کم ہے۔ خواتین کے لیے پالیسی سازی میں ان کی کم شمولیت کی وجہ سے ان کے حقوق کی مکمل طور پر حفاظت نہیں ہو پاتی.
پاکستان میں خواتین کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے، مگر انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ تحریکِ آزادی میں خواتین کی شمولیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان، فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو جیسی شخصیات نے پاکستانی سیاست اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی، پاکستانی خواتین مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں، لیکن انہیں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
تعلیم کے میدان میں دیکھا جائے تو پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاصی جدوجہد جاری ہے۔ ملالہ یوسفزئی کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو تعلیم کے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بنی۔ اگرچہ پاکستان میں لڑکیوں کے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن دیہی علاقوں میں آج بھی والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے کے بجائے گھریلو کام کاج میں لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
معاشی ترقی کے حوالے سے بھی پاکستانی خواتین نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کئی خواتین نے کاروباری دنیا میں قدم رکھا ہے اور فیشن، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں اپنی شناخت بنائی ہے۔ لیکن اس کے باوجود، خواتین کو مساوی مواقع نہیں ملتے۔ کئی خواتین کو اپنے کاروبار کے لیے سرمایہ فراہم نہیں کیا جاتا، اور بینکاری کے شعبے میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
سیاست کے میدان میں پاکستانی خواتین کی نمائندگی ہمیشہ کم رہی ہے۔ اگرچہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیرِاعظم ایک نئی تاریخ رقم کی، لیکن اس کے بعد خواتین کو سیاست میں بھرپور مواقع نہیں ملے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں تو موجود ہیں، مگر یہ اکثر موروثی سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، جہاں صرف مخصوص خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہی آگے بڑھ پاتی ہیں۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے قوانین تو بنائے گئے ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد کی کمی ہے۔ گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، اور ہراسانی جیسے مسائل کے حل کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کئی خواتین کو عدالتوں میں انصاف حاصل کرنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے اکثر خواتین انصاف کی امید ہی چھوڑ دیتی ہیں۔
خواتین کے عالمی دن کا مقصد صرف مسائل کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ ان کے حل کے لیے راہیں تلاش کرنا بھی ہے۔ تعلیم ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے اور حکومتوں کو اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے وظیفے اور تعلیمی اداروں کو محفوظ بنایا جانا چاہیے۔ والدین کو بھی اس بارے میں آگاہی دی جانی چاہیے کہ تعلیم ہی ان کی بچیوں کا بہتر مستقبل بنا سکتی ہے۔
خواتین کو ہر شعبے میں مساوی مواقع فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ تنخواہوں میں فرق کو ختم کرنا چاہیے اور انہیں قیادت کی پوزیشنز میں آنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔ دفاتر میں صنفی تفریق کے خلاف سخت قوانین نافذ کیے جانے چاہئیں۔ گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی کے خلاف تو سخت قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد بہت کم ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ ان قوانین کو مؤثر بنائیں اور خواتین کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کریں۔
عورتوں کا عالمی دن صرف ایک دن نہیں بلکہ یہ ایک پیغام ہے کہ خواتین کو برابری، عزت اور حقوق ملنے چاہئیں۔ معاشرہ تب ہی ترقی کر سکتا ہے جب اس کا ہر فرد، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، برابر کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکے۔ ہمیں صرف تقریبات اور سیمینارز پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ حقیقی معنوں میں خواتین کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ دن ہر اس عورت کی ہمت اور قربانی کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جس نے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ناانصافیوں کا سامنا کیا مگر ہمت نہیں ہاری ہے.