WhatsApp Image 2025 01 19 at 23.27.19 1

عورت مارچ 2025: ایک نئے عزم کے ساتھ جدوجہد کا تسلسل

انیلہ اشرف

پاکستان کی خواتین نے دہائیوں سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے، جو آج بھی جاری ہے۔اس سفر میں انہوں نے کئی سنگِ میل عبور کیے،لیکن معاشرتی اور قانونی چیلنجز کے باوجود یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی۔WhatsApp Image 2025 01 19 at 23.27.19عورت مارچ 2025ءاس سال 8 مارچ کو ماہ رمضان المبارک کے تقدس و احترام کی وجہ سے کے فروری کےآخری ہفتے کے آغاز پرمنعقد ہو رہا ہے۔اس تاریخ کا انتخاب اس سوچ کے ساتھ کیا گیا ہے کہ حقوق کی جدوجہد کسی ایک دن تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔رمضان المبارک کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ تبدیلی ان لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہے جو روزے کی حالت میں مارچ میں شرکت کو مشکل سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد ایک طویل اور پیچیدہ سفر پر مشتمل ہے:29 فروری 1996ء میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے ساتھ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کنونشن(سیڈا) پر دستخط کیے، جو اس سمت میں ایک اہم پیش رفت تھی،جس کی جدوجہد خواتین قیام پاکستان کے بعد سے کررہی تھیں‌اور ضیاءالحق کے مارشل لاء دور میں خواتین کے خلاف اقدمات پر یہ مہم تیزی اختیارکرگئی تھی،جوپاکستان کےسیڈاپر دستخط کرنے والے 174 ویں‌ملک بننےپر منظم صورت اختیارکر گئی.

اس کے بعدخواتین کی بہت سی تنظیمیں‌وجود میں‌آئیں‌اور خواتین کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے جانے لگے لیکن ان میں‌ تیزی سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں آئی،جب خواتین کے تحفظ کے لیے کئی اہم قوانین متعارف کروائے گئے۔خواتین کو وفاقی و صوبائی اسمبلیوں، سینٹ میں‌ نمائندگی دینے کے ساتھ 5 فیصد جماعتی ٹکٹس خواتین کو دینے، بلدیاتی نظام میں‌خواتین کو براہ راست اور مخصوص نمائندگی دینے،حدود آرڈیننس کے تحت خواتین کو تحفظ دینے،فوجداری مقدمات میں‌خواتین کے لئےآئینی روح کے مطابق حق دینے،خواتین کے ادارے متعارف کرانے کے ساتھ خواتین کو اداروں‌کی سربراہی دینے جیسے متعدد اقدامات کرکے ضیائی مارشل لاء کی بھیانک تصور کو دھندلاکیاگیا.

اس کے بعد کے ادوار میں بھی خواتین کے لیے وراثت کے حق، کام کی جگہ پر جنسی ہراسمنٹ، ڈے کیئر کی سہولیات، اور خاتون محتسب جیسے قوانین تشکیل دیے گئے۔اب تک بے شک قانون سازی میں پیش رفت ہوئی ہے اور خواتین کے تحفظ کے لئےکثیرالقوانین والا ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں‌ معاشرتی طور پر خواتین آج بھی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں:WhatsApp Image 2025 01 19 at 23.50.32 1خواتین کے ساتھ جنسی تشدد، گھریلو تشدد، اورکم جہیز لانے،بیٹانہیں‌ہونے، دوسری شادی کی اجازت نہیں‌دینے پر قتل جیسے واقعات عام ہیں۔حتیٰ‌ کے ساری عمرمہذب ترین بیرون ممالک میں‌رہنے والوں‌نےبھی بیٹیوں‌ کی پسند کی شادی پر انہیں‌غیرت کی بھینٹ‌چڑھادیا اور ملک کا نام بدنام کرنے میں‌ کوئی کسر نہیں‌چھوڑی ہے.

پاکستانی خواتین کے لئےانصاف کی فراہمی بھی ناپید ہے،عدالتوں میں خواتین کے خانگی حقوق اور جنسی تشدد کے مقدمات کی بھرمار ہے،عورت کو صرف جسم سمجھنے والوں‌سے اپنا نان نفقہ، سامان جہیز،بچوں‌کا خرچ لینے کےلئے خواتین کو کس قدر زہنی ازیت اور مشکلات سے دوچار ہوناپڑتاہے ،یہ ایک الگ طویل درد بھری کہانی ہے.اسی طرح‌جنسی تشدد کے مقدمات میں‌ بھی خواتین کے لئےسازگار ماحول کی شدید کمی ہے۔عدالتوں‌میں‌مردعملے،وکلاء اور دیگر سائلوں‌کی موجودگی میں‌نازیبا سوالات کے ساتھ شائستہ الفاظوں‌کا چناؤ نہیں‌ہونا اور خواتین کے لئے مناسب انتظارگاہ و بیت الخلاء کی سہولیات تک نہیں‌ہونا ایک المیےکےسوا کچھ نہیں‌ہے.

اس طرح پولیس سٹیشنز اور سائبر کرائم کے مقدمات میں جدید تفتیشی نظام اور فوری انصاف کی فراہمی کا فقدان خواتین کے لیے مزید رکاوٹیں پیدا کرتا ہے،کیونکہ خواتین پہلے ہی شدید ترین گھریلو اور معاشرتی دباؤ کے خلاف بمشکل آواز اٹھاتی ہیں‌،اس پر انہیں‌تھانوں‌میں‌جس طرح‌کے ماحول اور رویوں‌کاسامناکرناپڑتا ہے،وہ انہیں‌انصاف کے راستوں‌سے کہیں‌دور لے جاتاہے.

معاشرے میں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین یا ملازمت اور کاروبار کے لیے گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کو تو بالکل ہی منفی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،اس پر طرہ یہ کہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے یا عورت مارچ جیسی حق کی آواز کو سمجھے بناء وہ مرد بھی انتہائی منفی الفاظ کہتےنظر آتے ہیں‌،جو خواتین ورکرز والے سیلونز کارخ‌کرتے ہیں،صرف گھر میں‌بند کی گئی اپنی عورت کے علاوہ معاشرےمیں‌نظر آنے والی ہر عورت پرنگاہ غلط ڈالنااپنا حق سمجھتےہٰیں۔

عورت مارچ کا مقصد صرف اور صرف خواتین کے لیے مساوی حقوق، سماجی انصاف، اور بہتر ماحول کی تشکیل ہے۔اس پلیٹ فارم کے ذریعے خواتین اپنی آواز بلند کرتی ہیں تاکہ:گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، اور وراثتی ناانصافی کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔خواتین کے لئےقانون سازی کو مؤثر بنایا جا سکے اور اس کا اطلاق یقینی ہو۔ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں خواتین کو عزت اور مواقع میسر ہوں۔

23 فروری 2025ءکو، خواتین، مرد، اور مختلف طبقوں کے افراد ایک بار پھر اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے اکٹھے ہوں گے، تاکہ ایک زیادہ جامع، مساوی، اور منصفانہ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکے،کیونکہ عورت مارچ 2025ءصرف ایک ایونٹ نہیں بلکہ یہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی بھی ہمیں قانونی، سماجی اور انتظامی شعبوں میں بہتری کے لیے کام کرنا ہے۔

dcbfb17b f4ee 47f1 937b f48c222f5457
انیلہ اشرف

اپنا تبصرہ لکھیں