اسلام آباد: سپریم کورٹ نے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے سدباب کیلئے عدالت میں منصوعی ذہانت کے استعمال کو اہم قرار دیدیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے 14 سال پرانے نیلامی کے کیس میں تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے 2011ء میں نیلامی کے کیس پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک فیصلے میں ریمارکس دیے کہ انصاف میں تاخیر صرف انصاف سے انکار نہیں بلکہ اکثر اوقات انصاف کو ختم کر دیتی ہے۔
اس مقدمے کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے بینچ نے 18 جولائی کو کی اور 28 دن بعد 4 صفحات کا فیصلہ سپریم کورٹ ویب سائٹ پر جاری کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ 14 سال گزرنے کے بعد درخواست گزار کو کیا ابھی مؤثر ریلیف مل سکتا ہے؟، کیس 10 سال تک پشاور ہائیکورٹ میں زیر التواء رہا، 2022ء سے کیس سپریم کورٹ میں ہے مگر لگا نہیں، یہ محض انتظامی نہیں، آئینی معاملہ ہے، بروقت انصاف شہریوں کا آئینی حق ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 14 سال پرانے تنازع پر اب نہ درخواست گزار، نہ کوئی نمائندہ عدالت پیش ہوا، درخواست عدم پیروی پر خارج کی جاتی ہے۔
اپنے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے سدباب کیلئے منصوعی ذہانت کے استعمال کو اہم قرار دیدیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انصاف میں تاخیر محض انصاف سے انکار نہیں بلکہ اکثر اوقات انصاف کے خاتمے کے مترادف ہوتی ہے، انصاف میں تاخیر عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے، انصاف کی فراہمی میں تاخیر قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ انصاف میں تاخیر سے کمزور اور پسماندہ طبقات طویل عدالتی کارروائی کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے، انصاف کی فراہمی میں تاخیر سرمایہ کاری کو روکتی ہے، عدلیہ کی ادارہ جاتی ساکھ کو کمزور کرتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان بھر کی عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں، زیر التواء مقدمات میں سے تقریباً 55 ہزار 941 سپریم کورٹ میں ہیں، عدالت کو بطور ادارہ جاتی پالیسی اور آئینی ذمہ داری فوری طور پر ایک جدید، جوابدہ، اسمارٹ کیس مینجمنٹ نظام کی طرف منتقل ہونا ہوگا۔