سید خالد جاوید بخاری
اردو زبان، جو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ 2023ء میں اردو زبان نے بین الاقوامی شناخت کے ایک نئے دور میں قدم رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی 27 ثانوی زبانوں میں شمولیت حاصل کی، جو اس کی عالمی اہمیت اور افادیت کا واضح اعتراف ہے۔
یہ پیش رفت نہ صرف اردو بولنے والی آبادی کے لیے خوش آئند ہے بلکہ پاکستان کے لیے لسانی، ثقافتی اور سفارتی سطح پر ایک نئی شناخت کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اس تحقیقی آرٹیکل میں اردو زبان کی بین الاقوامی حیثیت، اقوامِ متحدہ میں اس کی شمولیت کے اثرات، اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کے مستقبل پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
اردو زبان کا آغاز برصغیر کے اُن علاقوں میں ہوا جہاں مختلف ثقافتیں، زبانیں اور مذاہب یکجا ہوئے۔ عربی، فارسی، ترکی اور ہندی زبانوں کے امتزاج سے جنم لینے والی یہ زبان مغلیہ سلطنت کے دور میں علمی و ادبی زبان کی حیثیت سے ابھری۔ وقت کے ساتھ ساتھ اردو نے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔
پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، جبکہ ہندوستان میں یہ ایک بڑی اقلیتی زبان ہے جو کروڑوں افراد کی مادری زبان ہے۔ خلیجی ممالک، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ریاستوں میں اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جو اسے ایک بین الاقوامی رابطے کی زبان بناتی ہے۔
اقوامِ متحدہ میں اردو کی شمولیت، ایک تاریخی سنگِ میل ہے، اقوامِ متحدہ میں زبانوں کو دو بنیادی درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے.جن میں سرکاری زبانیں یعنی وہ زبانیں جن میں اقوامِ متحدہ کی دستاویزات، اجلاس، اور مذاکرات ہوتے ہیں (مثلاً انگریزی، عربی، چینی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی)، ثانوی زبانیں یعنی وہ زبانیں جو مخصوص مواقع اور مواد کی ترسیل کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، مثلاً علاقائی رپورٹنگ، ترقیاتی منصوبے، اور عوامی رابطے کےلئے استمعال ہوتی ہیں۔
اردو کی ثانوی زبان کی حیثیت سے شمولیت ایک سفارتی اور ثقافتی کامیابی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اقوامِ متحدہ کی بعض دستاویزات، اعلامیے، اور ترقیاتی مواد اردو زبان میں بھی دستیاب ہوں گے۔ اس اقدام سے اردو بولنے والے کروڑوں افراد عالمی اداروں کے ساتھ براہِ راست رابطے میں آسکیں گے اور اقوامِ متحدہ کی پالیسیوں سے بخوبی آگاہ ہو سکیں گے۔
اردو کی اقوامِ متحدہ میں شمولیت نے اسے ایک ابھرتی ہوئی عالمی زبان کی سمت میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں اردو کی تعلیم، اشاعت، اور ڈیجیٹل ترقی کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔
اردو ادب نے غالب، میر، اقبال، فیض، منٹو، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ جیسے عالمی شہرت یافتہ ادیب اور شاعر پیدا کیے جن کا کلام دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اردو شاعری غزل اور نظم کی شکل میں نہ صرف برصغیر بلکہ مغرب میں بھی مقبول ہو رہی ہے، اور بین الاقوامی مشاعروں کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے یونی کوڈ، گوگل ترجمہ، یوٹیوب، اور سوشل میڈیا پر اردو زبان کی موجودگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے اردو بولنے والے افراد دنیا بھر کے علمی اور تکنیکی وسائل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے اردو کی اہمیت کو لسانی، ثقافتی اور آئینی حوالہ سے دیکھا جائے تو اردو کی عالمی سطح پر پذیرائی نے پاکستان کے اندر بھی اس کی افادیت کو از سرِ نو اُجاگر کیا ہے. اس طرحقومی شناخت کے اظہار میںاردو کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حیثیت پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی خودمختاری کو تقویت دیتی ہے۔
حکومتی و عدالتی نظام میں نفاذ کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2015ء میں اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے واضح احکامات جاری کیے، جنہیں اب عالمی سطح پر بھی تقویت حاصل ہو چکی ہے۔
اردو بولنے والی مارکیٹ کی وسعت کو دیکھتے ہوئے، عالمی تجارتی ادارے اور کمپنیاں اردو میں معلومات کی فراہمی کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف کاروباری مواقع بڑھیں گے بلکہ روزگار کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔
اردو کا اقوامِ متحدہ میں 27 ثانوی زبانوں میں شامل ہونا صرف ایک لسانی ترقی نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور قومی شناخت کا اعتراف بھی ہے۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا کر پاکستان نہ صرف اپنی زبان و ثقافت کو عالمی سطح پر نمایاں کر سکتا ہے بلکہ اردو زبان کو سائنسی، تعلیمی اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں بھی آگے لا سکتا ہے۔یہ پیش رفت آنے والے وقتوں میں اردو زبان کو عالمی اداروں، تعلیمی نصاب، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، اور عالمی مباحثوں کا مستقل حصہ بنا سکتی ہے — اور یہی کسی زبان کی اصل زندگی ہے۔
حوالہ جات:….
پاکستان کا آئین (1973)
سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ: اردو کو دفتری زبان قرار دینا (2015)
اقوامِ متحدہ کی زبان پالیسی
ورلڈ بینک رپورٹ: زبان اور عالمی ترقی
NEPRA ایکٹ (1997)
اردو ادب کی عالمی اہمیت پر تحقیقی مقالات
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔