نوید اکرم عباسی
برگد کے قدیم ترین درخت کو بچانے کی ایک کہانی، راولپنڈی سے کوہ مری آنے والی شاہراہ پر 5 سو سال پرانے تاریخی برگد (بوھڑ) نے کئی حکمرانوں کی حکومت دیکھی اور قافلوں کو سایہ دیا ۔
ہمارے بچپن سے تاحال اپنے آبائی علاقے سرکل بکوٹ کوہالہ سے راولپنڈی اسلام آباد کا سفر جو براستہ کوہ مری جی ٹی روڈ ہوتا، سالگراں کے ٹول پلازہ کے قریب سڑک کے بائیں جانب ایک خوبصورت دیو ہیکل برگد کا درخت اور اسکی بل کھاتی شاخیں اپنی طرف متوجہ کرتی اور اسکے ساتھ ہی سڑک کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا قبرستان جس کو دیکھ کر دعا فاتحہ یاد آجاتی ہے، ان کے قریب ہی پانی کے چشموں کے آثار بھی موجود ہیں۔
یہ درخت جو جولائی 2025ء کے مون سون بارشوں کے باعث جڑوں سے اکھڑ کر زمین پر گر گیا تھا اس کو بچانے کے لیے ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ خواجہ مظہر اقبال نے فوری رپورٹ کرنا شروع کیا اور کوہ مری سے الیکٹرانک میڈیا کے صحافی ارسلان اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس بوڑھے برگد کے ہزاروں عاشقوں نے اس کو بچانے کے لیے آواز بلند کرنی شروع کردی.
اس تاریخی برگد سے بہت لوگوں کی یادیں وابستہ ہیں اور درختوں اور تاریخی ورثہ سے پیار کرنے والوں کو معلوم تھا کہ یہ قدیم درخت خطہ پوٹھوار راولپنڈی سے لے کر سرکل بکوٹ خیبرپختونخواہ اور آذاد کشمیر تک شاہراہ سری نگر پر عمر اور موٹائی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ماہرین کے مطابق اسکی موٹائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پانچ سو سالوں سے زاہد عمر کا ہے۔
مغلوں، گھگڑوں، سکھوں کے دور حکومت میں موجود تھا پھر انگریزوں کی حکومت اور راولپنڈی صدر سے کوہ مری تک اور پھر کوہ مری سے کوہالہ پل اور اس سے آگے سری نگر تک اس پگڈنڈی نما راستہ کو جب گاڑیوں کے لئے سڑک بنائی گئی تو سترہ میل کے اس برگد جو صدیوں سے قافلوں کو سایہ اور چشموں کے پانی کی فراہمی پر ستانے کا ٹھکانہ تھا. یہاں ہی ایک طرح کا ٹیکس لگایا گیا جو بعد میں پیدل چلنے والوں کو فری کردیا گیا، مگر اسکے بعد پاکستان کے قیام کے بعد یہاں ٹول ٹیکس تاحال جاری ہے.
اس درخت کے گرنے پر ماحول اور درختوں سے پیار کرنے والے خواجہ مظہر اقبال کی معاونت کے لیے محکمہ جنگلات کے ڈی ایف او محمد جاوید اور ایس ڈی ایف او رضوان احمد نے اپنی ٹیم کے ساتھ کاروائی شروع کی اور ان کی اپیل پر شہریوں نے تعاون کرکے دو کرینوں کی مدد سے پہلے اس کا بوجھ کم کرنے کے لئے کٹائی کی اور پھر اسکو دوبارہ زمین میں گاڑنے کے بعد اسکی شاخوں کو بھی لگایا تاکہ مزید برگد کے درخت بن جائیں اور زیر زمین چشموں کے پانیوں کا راستہ بھی صاف کیا گیا ۔اس کاروائی کو بڑی تعداد میں عوام دیکھنے آتی رہی اور حوصلہ افزائی کی گئی۔
اس سے ایک چیز سامنے آئی کہ آج بھی ماحول دوست تاریخی درختوں سے پیار کرنے والے موجود ہیں اور ان کا پیغام ہے کہ نئے پودے کو بھی لگائیں اور پرانے تاریخی درختوں کو بھی بچائیں، یہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں جن کو ہم معمولی لالچ میں اپنے ہاتھوں ضائع کررہے ہیں۔ اللّہ پاک خطہ پوٹھوار کوہسار مری سرکل بکوٹ گلیات کے سرسبز جنگلات اور اسکے چرند پرند، جنگلی حیات کو بھی بوڑھے برگد کی طرح قدردان نصیب فرمائے اور ان کی حفاظت فرمائے آمین.