زندگی کبھی کبھی ایک تنہا سفر کی طرح محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں ایسے ساتھی شامل ہوتے ہیں جو ہر موڑ پر ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ کچھ ساتھی ہمارے ساتھ چلتے ہیں، کچھ ہماری باتوں میں خوشبو کی طرح بکھرتے ہیں، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو کتابوں کی شکل میں ہمیشہ ہماری روح کو جوڑتے ہیں۔ کتابیں ایک گمشدہ دوست کی مانند ہیں، جو نہ صرف سکون فراہم کرتی ہیں بلکہ ہمارے وجود کو مکمل بھی کرتی ہیں۔ ان کے صفحات میں چھپی کہانیاں کبھی ہمیں حیران کر دیتی ہیں اور کبھی ہمیں خود سے قریب لے آتی ہیں۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کتابوں کا سفر کہاں سے شروع ہوا ہوگا؟ شاید یہ انسان کے پہلے الفاظ کے ساتھ شروع ہوا، جب اس نے غاروں کی دیواروں پر تصویریں بنائیں۔ وہ تصویریں کسی خاموش چیخ کی مانند تھیں، جو کہانی بیان کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان نقوش نے انسان کو یہ سکھایا کہ کہانیاں صرف سنی اور سنائی نہیں جاتیں، بلکہ انہیں محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ لمحہ انسانیت کے لیے پہلا تحریری باب تھا، جہاں سے الفاظ کا سفر شروع ہوا۔پھر وہ وقت بھی آیا جب انسان نے لکھائی کو کسی ایک سطح پر محدود نہیں رکھا۔ پتھر سے پپائرس تک، اور وہاں سے کاغذ تک، کتابوں کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوا۔ تصور کریں، کسی قدیم لائبریری میں۔ میں آپ داخل ہو رہے ہیں۔ وہاں ہر سمت دھیمی روشنی ہے، اور کتابوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ ہر کتاب اپنے اندر ایک کائنات سموئے بیٹھی ہے۔ اس وقت کے عالم کسی جوگی کی طرح کتابوں میں علم تلاش کرتے تھے۔ وہ کتابوں کو نہ صرف پڑھتے بلکہ ان پر غور و فکر بھی کرتے تھے۔
پھر جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا تو کتابیں ہر خاص و عام تک پہنچ گئیں۔ اب علم محض امیروں یا طاقتوروں کا حق نہیں رہا۔ عام انسان بھی ان کتابوں سے سیکھنے لگا۔ یہ لمحہ واقعی انقلابی تھا، کیونکہ یہ علم کو محدود قلعوں سے نکال کر گلیوں اور بازاروں تک لے گیا۔ لوگوں نے کتابوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ وہ ان کی کہانیوں میں زندگی کے معانی تلاش کرتے، اور ان کے خیالات کو اپنی حقیقت میں ضم کرتے۔
اگر ہم کتابوں کے اس سفر کا حالیہ منظر دیکھیں، تو محسوس ہوگا کہ ہم ایک اور دوراہے پر کھڑے ہیں۔ آج کتابیں کاغذ کے صفحات سے ڈیجیٹل اسکرین تک منتقل ہو چکی ہیں۔ کبھی ہم انہیں جیب میں رکھتے تھے، اور آج وہ اسمارٹ فون میں محفوظ ہیں۔ آپ صرف ایک کلک سے دنیا کی کسی بھی زبان کی کتاب پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سہولت کے باوجود، کچھ کمی محسوس ہوتی ہے شاید وہ خوشبو جو کاغذ کی کتابوں میں ہوتی ہے، یا وہ خاموشی جو لائبریری کی فضا میں چھپی ہوتی ہے۔
میں نے ایک بار اپنے دوست سے پوچھا کہ وہ آج کل کیا پڑھ رہا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے اپنی ای بک کا ذکر کیا اور کہا، "کتاب اب بس ایک فائل کی طرح ہے، جسے پڑھنے کے لیے خاص وقت نکالنا بھی ضروری نہیں۔” میں نے محسوس کیا کہ کتابوں کا یہ نیا روپ سہولت تو فراہم کر رہا ہے، لیکن ایک خاموشی بھی ساتھ لایا ہے، جیسے کسی دوست کے بغیر چائے پینا۔
لیکن یہ کہانی صرف ایک رکاوٹ پر ختم نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ آج بھی کتابوں کی روایتی شکل کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ قدیم کتب خانے تلاش کرتے ہیں، ان کتابوں کو جو وقت کی دھول میں چھپی ہیں، اور ان کہانیوں کو جو ہمیں ماضی کی جھلک دیتی ہیں۔ شاید یہ لوگ اس جادو کو بھلانا نہیں چاہتے جو ایک پرانی کتاب کے ورق الٹنے سے پیدا ہوتا ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا انسان ہمیشہ کتابوں کے بغیر رہ سکتا ہے؟ شاید نہیں، کیونکہ کتابیں صرف تفریح کا ذریعہ نہیں، بلکہ وہ ہماری اندرونی دنیا کو تسکین دیتی ہیں۔ وہ ہماری سوچوں کو چیلنج کرتی ہیں، ہمیں سوال کرنے پر مجبور کرتی ہیں، اور ہمیں اپنے وجود کی گہرائی میں لے جاتی ہیں۔ وہ ہمیں دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے کا موقع دیتی ہیں، اور وہ سمجھنے کا شعور عطا کرتی ہیں جو شاید کسی اور ذریعہ سے حاصل نہ ہو سکے۔
ہم آج کے دور میں جتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، کتابوں کی یہ دنیا بھی تیزی سے بدل رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس زمانے میں، اب ایسی کہانیاں تخلیق ہو رہی ہیں جو انسان کے لکھے ہوئے الفاظ سے بھی زیادہ تخلیقی ہو سکتی ہیں۔ لیکن کیا یہ کہانیاں ہماری روح کو چھو پائیں گی؟ کیا یہ ہمیں خواب دیکھنے، سوال کرنے، اور جواب تلاش کرنے پر آمادہ کر سکیں گی؟ شاید وقت ہی اس سوال کا جواب دے گا۔یہ سچ ہے کہ کتابوں کا مطلب ہر دور میں مختلف رہا ہے۔ پہلے وہ محض علم کے خزانے ہوا کرتی تھیں، پھر تفریح کا ذریعہ بنیں، اور اب ایک ایسی عادت جو کبھی شوق سے زیادہ اور کبھی محض ضرورت بن چکی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے، کتابیں ہمیں ایک ایسے انسان میں ڈھالتی ہیں جو اپنے ہونے کی قدر کر سکے، اور جو اپنی کہانی دوسروں کے ساتھ بانٹ سکے۔
تو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کی زندگی میں کتابوں کا کیا مقام ہے؟