سید خالد جاوید بخاری
پرچم (Flag) محض ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ یہ شناخت، وفاداری، طاقت، اور عقیدے کی علامت ہے۔ انسانی تاریخ میں پرچم ہمیشہ ایک روحانی، عسکری، اور سیاسی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ پرچم لہرانے کی رسم کی ابتدا مختلف تہذیبوں میں مختلف وجوہات کے تحت ہوئی، لیکن اس کے بنیادی مقاصد میں اتحاد کی علامت، دشمن اور دوست کی پہچان، اور مذہبی و سیاسی عقائد کا اظہار شامل تھے۔
قبل از اسلام پرچم کی رسم پر نظر ڈالیں تو قدیم مصر میں تقریباً 3000 قبل مسیح سے پرچم نما علامتیں (Standards) استعمال ہوتی تھیں۔ یہ لکڑی یا دھات کی سلاخوں پر مختلف علامتوں (جانور، دیوتا یا سلطنت کا نشان) کے ساتھ بنائے جاتے اور جنگ یا مذہبی تہواروں میں بلند کیے جاتے۔حوالہ: Wilkinson, Toby A. H., Early Dynastic Egypt, Routledge, 1999. میںدئیے گئے اردو ترجمہ کے اقتباس کے مطابق”قدیم مصری ریاستوں میں ہر ضلع کا ایک مخصوص نشان یا جھنڈا ہوتا تھا جو فوجی مارچ اور مذہبی جلوسوں میں بلند کیا جاتا تھا”. یونانی فوجیں فیلنکس (Phalanx) میں لڑتے وقت مخصوص جھنڈے یا رنگدار کپڑے بلند کرتیں تاکہ فوج کی سمت اور حوصلہ برقرار رہے۔ رومی سلطنت میں Signum یا Vexillum کہلانے والے پرچم فوجی دستوں کی شناخت اور قیصر کی وفاداری ظاہر کرتے تھے۔جس کا حوالہ: Connolly, Peter, Greece and Rome at War, Greenhill Books, 1998. میںموجود ہے.
ہندو مہاکاوی "مہابھارت” میں پرچم کا ذکر کثرت سے ملتا ہے، جیسے ارجن کا جھنڈا جس پر ہنومان کی تصویر بنی تھی۔حوالہ: Mahabharata, Book 6, Bhishma Parva. کے اردو ترجمہ کے اقتباس کے مطابق "ہر راجہ کا اپنا دھج (جھنڈا) ہوتا تھا جو اس کی فوج اور شان کی پہچان تھا”. تاہم بعد از اسلام پرچم کی رسم میںرسول اللہ ﷺ کے دور میں
اسلام میں پرچم کا باقاعدہ اور واضح استعمال غزوات میں ہوا۔ نبی کریم ﷺ کے پرچم کو "رایة” یا "لواء” کہا جاتا تھا۔ مشہور سیاہ پرچم العقاب (عقاب = باز) اور سفید پرچم "لواء” کے نام سے جانے جاتے تھے۔ جس کے حوالہ: ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، جلد 2، صفحہ 14.کے اردو ترجمہ سے اقتباس کے مطابق "رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک سیاہ جھنڈا تھا جسے عقاب کہا جاتا اور ایک سفید جھنڈا بھی تھا جو خاص معرکوں میں بلند کیا جاتا تھا”.
خلافت راشدہ میں سفید اور سیاہ جھنڈے دونوں استعمال ہوئے، جن پر کلمہ طیبہ یا قرآنی آیات درج ہوتیں۔عباسی خلافت نے سیاہ جھنڈے کو سرکاری رنگ قرار دیا، جبکہ امویوں کا رنگ سفید تھا۔حوالہ: Kennedy, Hugh, The Prophet and the Age of the Caliphates, Routledge, 2004.تاہم سلطنت عثمانیہ میں سرخ پرچم ہلال اور ستارے کے ساتھ 18ویں صدی میں سرکاری نشان بنا۔یورپ میں 16ویں سے 18ویں صدی میں قومی ریاستوں کے قیام کے بعد پرچم قومی علامت بن گیا۔برطانوی راج کے دوران برصغیر میں سرکاری تقریبات اور فوجی پریڈ میں پرچم کشائی کا رواج بڑھا، جو بعد میں آزادی کے دن کی سب سے بڑی علامت بن گیا۔
پرچم لہرانے کی رسم ہزاروں سال پرانی ہے، جو ابتدا میں مذہبی اور عسکری مقاصد کے لیے تھی، مگر وقت کے ساتھ یہ قومی شناخت اور آزادی کی علامت بن گئی۔ قبل از اسلام یہ زیادہ تر مذہبی، نسلی یا فوجی نشان ہوتا تھا، جبکہ بعد از اسلام اس میں ایمان، عقیدہ اور امت کی وحدت کا تصور شامل ہو گیا۔
قبل از اسلام (ملتان = Mūlasthāna) — میں سورج مندر یا Prahladpuri جیسے ہندو زیارتی مراکز کے باہر ستنبھ / دھواج ستنبھ پر جھنڈے لگتے تھے۔ یہ عام طور پر زعفرانی، پیلا (saffron / yellow) یا روشن رنگت کے ہوتے تھے کیونکہ زعفرانی رنگ ہندو مذہبی روایات میں پوجا، یگیا اور روحانیت کا رنگ سمجھا جاتا ہے۔ مندروں کے جھنڈے اکثر اس دیوتا کی نشانی (مثلاً سورج کے لیے سورج کا دائرہ، وشنو کے لیے گارُڈا وغیرہ) اور مقدّس نشان رکھتے تھے۔
جب ملتان اسلامی حکمرانوں (مثلاً محمد بن قاسم کی فتح 712ء کے بعد) کے زیرِ اثر آیا تو قلعوں، گَڑیوں (citadel) اور لشکروں کے ساتھ سادہ رنگ کے بیرق/لَوائے استعمال ہوتے تھے — عموماً فوجی شناخت، سپہ سالار کے نشان، اور حکومتی نمائندگی کے لئے۔ (ملتان کی تاریخی تنصیبات اور قلعے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ فوجی اور حکومتی نشان وہاں معمول تھے)۔
روایتی اسلامی روایات کے مطابق مقامی امرا اور سلطنتوں کے پاس اپنے استاندارڈ/علَم ہوتے تھے؛ ان پر عموماً قرآنی عبارات، حکومتی نشان، یا سادہ رنگ ہوتے تھے۔ مخصوص رنگ (مثلاً عباسی سیاہ، اموی سفید) کا استعمال بڑے سیاسی اتحاد کی شناخت کے طور پر دیکھا جاتا تھا مگر مقامی سطح پر روایتی رہنماؤں کے علَم کا مرکب مختلف رہا۔ ملتان اس دور میں مختلف سلطنتوں کے زیرِ اثر رہا، اس لئے مقامی بیرق بھی مختلف رنگوں میں دہرائے گئے۔ (براہِ راست مقامی رنگوں کا تفصیلی ریکارڈ کم محفوظ ہے)۔
سِکھ دور (میاں ۱۸–۱۹ویں صدی، Ranjit Singh کا عہد اور Multan کی فتح) میں گُردوارے کے باہر عمودی تیرہ/مثلثی جھنڈا — روایتی طور پر basanti (زعفرانی/پیلا) رنگ یا surmai (نیلا/سرمئی) — جس پر خنڈا (Khanda) شبیہ ہوتی ہے۔ نِشانِ صاحب پوری سِکھ پہچان اور رِہبری کا نشان ہے۔ فوجی بیرق/ریجیمینٹل جھنڈے: رنجیت سنگھ کے Khalsa فوجی جھنڈے مختلف یونٹوں کے مطابق مختلف رنگ (نیلا، پیلا، وغیرہ) اور امبیلم رکھتے تھے؛ جب سِکھوں نے ملتان فتح کیا تو یہی فوجی جھنڈے وہاں دیکھے گئے۔سِکھ علَم مذہبی و سیاسی دونوں حیثیت رکھتے تھے: گُردوارے/کمیونٹی کی پہچان (Nishan Sahib) اور فوجی/حکومتی اقتدار کی نمائش۔ Siege of Multan کے دوران سِکھ فوجی جھنڈے بطورِ فوجی علامت نظر آئے۔
نوآبادیاتی نشان کے طور پر Union Jack / British ensigns — جب برطانوی فوج یا سرکاری افسران نے ملتان پر کنٹرول حاصل کیا (مثلاً 1849 کے Siege of Multan کے بعد)، قلعوں، گورنمنٹ ہاؤسز اور فوجی کیمپوں پر برطانوی جھنڈے (Union Jack اور مخصوص برطانوی انسیگنیا) لہراۓ گئے۔ برطانوی دور کے سرکاری جھنڈے سرکاری وقار اور اقتدار کا اظہار کرتے تھے۔
آزاد پاکستان (1947ء سے آج تک)قومی و صوبائی پرچم میں قومی پرچمِ پاکستان (گرین + سفید، ستارہ و ہلال) — باضابطہ طور پر 11 اگست 1947 کو منظور ہوا اور 14 اگست 1947 کو قومی پرچم کے طور پر نافذ۔ آج بھی ملتان میں سرکاری عمارتوں، اسکولوں، اور تقاریب میں یہ جھنڈا مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
صوبہ پنجاب کا پرچم — گہرے سبز و سفید رنگ اور وسط میں پنجاب کا نشان (پانچ ندیاں، گندم)، یہ 1 جولائی 1970 کو اپنایا گیا؛ ملتان چونکہ پنجاب کا حصہ ہے اس لیے سرکاری تقاریب میں یہ بھی استعمال ہوتا ہے۔قومی دن، یومِ آزادی، دفاع دن: سرکاری تقاریب میں صبح‑بخیر والی رسمی جھنڈا کشائی، پریڈز اور اسکولوں/کالجز میں جھنڈا تلاوت ہوتی ہے۔
ملتان‑کی جدید ثقافتی علامتوں (مثلاً Multan Sultans کرکٹ ٹیم) نے بھی اپنے رنگ (پیلا، سبز) اور لوگو جو ملتان کی مٹی/تہذیب کا واویلا دکھاتے ہیں، استعما ل کیے۔ (یہ اب ثقافتی/کاروباری اظہار بن چکا ہے)۔ملتان کے بڑے صوفی مزار (مثلاً Bahauddin Zakariya، Shah Rukn‑e‑Alam) اور دیگر مزارات پر عمومًا سر سبز یا دیگر رنگوں کی چادریں (chadars) دی جاتی ہیں اور بعض اوقات جشنِ عرس یا مخصوص مواقع پر زینی، لکشمی یا علامتی کپڑے/جھنڈے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرینِ ثقافت و اثاریات کہتے ہیں کہ صوفی مراکز میں سبز رنگ کے کپڑے/چادر اور بعض اوقات سادہ بیرق دیکھنے کو ملتے ہیں، جو مذہبی و روحانی وابستگی کا اظہار ہوتے ہیں۔ (یہ رسم کم و بیش پورے جنوبی ایشیا میں موجود ہے)۔
حوالہ جات:….
1. Multan Sun Temple — Wikipedia.
2. Prahladpuri Temple — Wikipedia.
3. Dhvaja / Dhvajastambha (Temple flag) — Wikipedia & Wisdom Library.
4. Flags of ancient & epic India (PDF, FIAV) — ‘Flags of Ancient & Epic India’.
5. Black Standard / Islamic flag traditions — Wikipedia.
6. Multan Fort / Siege of Multan — Wikipedia & Anglo‑Sikh sources.
7. Nishan Sahib and Sikh flags — Wikipedia / SikhNet.
8. Flags of British India — Wikipedia (British ensigns / Union Jack use).
9. Flag of Pakistan (adoption, symbolism) — Wikipedia / Britannica / Dawn.
10. Shrines of Multan (Bahauddin Zakariya, Shah Rukn‑e‑Alam) — Wikipedia / cultural studies on shrines.
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔