یوسف عابد
پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے موضوع ایک انتہائی اہم اور حساس مسئلہ ہے۔ پاکستان میں نئے صوبے بنانے کا موضوع ایک اہم بحث کا مرکز بھی ہے جو مختلف انتظامی، سیاسی اور سماجی و معاشی عوامل کو نمایاں کرتا ہے۔ نئے صوبوں کی مانگ مختلف مسائل جیسے نسلی تنوع، وسائل کی غیر مساوی تقسیم، اور بہتر طرز حکمرانی کی ضرورت پر مبنی ہے۔پاکستان میں آبادی کے مسلسل بڑھنے اور انتظامی مسائل کے پیش نظر نئے صوبے بنانے کی بحث کافی عرصے سے جاری ہے۔
پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل غیرجانبدارانہ رائے میں وقت کی اہم ضرورت ہے، مگر یہ عمل بغیر سیاسی اتفاقِ رائے اور عوامی مشاورت کے ممکن نہیں ہے۔ سیاسی ماہرین اور عوامی تحریکوں کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئینی ترامیم اور پالیسی سازی بھی بہت ضروری ہے۔ نئے صوبوں کے لئے موجودہ تحریکوں میں جنوبی پنجاب صوبہ تحریک،ہزارہ صوبہ تحریک،سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں نئے انتظامی یونٹس کا مطالبہ ذیادہ شدت سے شامل ہے۔
نئے صوبے بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے اور کئی جگہوں پر اس کے مطالبات میں شدت کی وجہ مختلف مسائل ہیں ،جن میں عوامی مسائل کے طور پر بڑی آبادی والے موجودہ صوبے جیسے پنجاب میں انتظامیہ کے لیے تمام اضلاع کے مسائل کو یکساں حل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔دور دراز علاقوں میں لوگوں کو صحت، تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
موجودہ بڑے صوبے مؤثر حکمرانی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، جبکہ چھوٹے صوبے زیادہ مقامی سطح پر انتظامیہ کو فعال بنا سکتے ہیں، جس سے وسائل کی بہتر تقسیم اور مخصوص علاقائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔انتظامی فوائد کے طور پر چھوٹے صوبے بہتر طرزِ حکمرانی کے لیے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ضلعی حکومتوں کے ساتھ زیادہ ہم آہنگی ممکن ہے۔وسائل کی تقسیم زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔ اس طرح کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ نئے صوبے قومی اتحاد کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں، لیکن حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے فیڈریشن مضبوط ہوگی اور بڑے صوبوں میں طاقت کے ارتکاز کو کم کرکے ان کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب عوامی آراءسے ظاہر ہوتا ہے کہ ہزارہ اور کراچی جیسے علاقوں میں زیادہ تر لوگ الگ صوبے کے قیام کی حمایت کرتے ہیں تاکہ نسلی تنازعات کو کم کیا جا سکے اور مقامی حکمرانی کو بہتر بنایا جا سکے۔
ماہرین کی آراء بھی نئے صوبوں کے قیام کو عوامی اور انتظامی مفاد میں ممدوومعاون اقدام ثابت کرتے ہیں ،جس میں ماہرینِ سیاسیات نئے صوبوں کو بہتر حکمرانی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں تو ماہرینِ معیشت سمجھتے ہیں کہ نئے صوبے مقامی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں اور معیشت کو فروغ دے سکتے ہیں۔اس طرح ماہرینِ قانون کہتے ہیں کہ آئینی ترامیم کے ذریعے نئے صوبوں کی تشکیل ممکن ہے، مگر سیاسی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔تاہم مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما نئے صوبوں کے حوالے سے مختلف آراء رکھتے ہیں،جس میں کچھ جماعتیں چھوٹے صوبوں کو یکجہتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں تودیگر جماعتیں اسے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اہم قرار دیتی ہیں۔ بعض سکالرز کا کہنا ہے کہ نئے صوبے بنانے کا فیصلہ نسلی اور انتظامی دونوں پہلوؤں پر مبنی ہونا چاہیے۔ وہ ایک متوازن حکمت عملی کی وکالت کرتے ہیں جو تاریخی اور مقامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیرپا طرز حکمرانی کو یقینی بنائے۔
صوبوں کی موجودہ شکل میں عوام کی اصل مشکلات میں موجودہ صوبائی دارالحکومتوں سے دور اضلاع میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔عوام کو مختلف قانونی اور سماجی عوامل کی بناء پر بیروزگاری کی مشکلات اور ترقی کے یکساں مواقع نہیں ملنا ہے۔ا س طرح دور دراز علاقوں کے مسائل کی مرکز تک عدم رسائی بھی محرومیوں کی بڑی وجہ ہے۔انتظامی ضروریات کے طور پر بھی ،بہتر گورننس کے لیے صوبوں کا حجم کم کرنا ضروری ہےکیونکہ وسائل کی مساوی تقسیم کے لیے چھوٹے صوبے مؤثر ہو سکتے ہیں اور پاکستان جیسے کثیر الثقافتی ملک میں مقامی ثقافتوں کو بہتر نمائندگی مل سکتی ہے۔
تاہم اس میں مختلف رکاوٹیں اور چیلنجز درپیش ہیں ،جس میں سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے درمیان اپنی اپنی جماعت کی پالیسی کی وجہ سے عدم اتفاق ہے اور اسی نااتفاقی کی وجہ سےصوبہ بنانے کے لئے قانونی ضرورت آئینی ترامیم میں مشکلات پائی جاتی ہیں۔جیساکہ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں کی جانب سے پیش یا منظور کی گئی تحریکیں صرف سیاسی مفاد تک ہی محدود رہی ہیں۔ اس ضمن میں اگرچہ کئی سیاسی رہنما نئے صوبے بنانے کی حمایت کرتے ہیں تاکہ نسلی گروہوں کی شکایات کو دور کیا جا سکے اور انتظامی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ وہ اس مسئلے پر بات چیت کے آغاز کے لیے عملی اقدامات پر زور دیتے ہیں۔تاہم کئی بڑے سیاستدانوں کو نئے صوبے بنانے کی صورت میں عوامی سطح پر تقسیم کا خوف رہتاہے کہ ان کے شاہی اقتدار اور ریاست میں کمی واقع ہو جائے گی۔
نئے صوبے بنانے کے لئےسرگرم تحریکیں اور رہنما مختلف عوامل کی بنیاد پر اپنامؤقف مظبوط کرتے ہیں کہ نسلی اور لسانی شناخت کی بنیاد پر پاکستان کے مختلف علاقے، جیسے سرائیکی بیلٹ اور ہزارہ، اپنے الگ صوبوں کے قیام کے حق میں ہیں تاکہ ان کی ثقافتی شناخت کو بہتر طور پر تسلیم کیا جا سکے۔ موجودہ صوبے متعدد نسلی گروہوں پر مشتمل ہیں، جس کی وجہ سے اقلیتی گروہوں میں محرومی کا احساس پایا جاتا ہے۔ اور سرائیکی صوبے میں دیگرزبانیں بولنے والوں نے بھی اس خطے کے لئے تحریکیں شروع کر رکھی ہیں۔
اس طرح وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ترقیاتی بجٹ اکثر صوبائی دارالحکومتوں تک محدود رہتا ہے، جس کے نتیجے میں دور دراز کے علاقوں میں پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نئے صوبے وسائل کی مساوی تقسیم کو یقینی بنا سکتے ہیں اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں محرومی کا احساس کم کرسکتے ہیں۔آبادی کا دباؤ بھی بنیادی وجوہات میں شامل ہے،جیسے پنجاب پاکستان کی 58 فیصد سے زائد آبادی پر مشتمل ہے، جس کی وجہ سے نئے صوبے بنانے کی ضرورت زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے تاکہ نمائندگی اور حکمرانی کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔
نئے صو بے بنانے کے حوالے سے مختلف چیلنجز بھی درپیش ہیں ،جن میں نئے صوبوں کی تشکیل کے لیے سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے مختلف مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے محتاط مذاکرات کی ضرورت ہے،لیکن ناقدین خبرداربھی کرتے ہیں کہ بغیر منصوبہ بندی کے صوبوں کی تقسیم نسلی تنازعات کو بڑھا سکتی ہے یا انتظامی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔تاہم پاکستان میں نئے صوبوں کا مطالبہ شناخت، حکمرانی، اور وسائل کی تقسیم سے جڑے گہرے مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ ان مسائل کو سوچ سمجھ کر بات چیت اور منصوبہ بندی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، جو کہ پاکستانی معاشرے کے متنوع تانے بانے کا احترام کرتے ہوئے ایک زیادہ منصفانہ اور مؤثر انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔