اکرام بکائنوی
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، دریاؤں اور نہروں کا جال اس کے سینے پر بچھا ہے، مگر انہی دریاؤں کا بے قابو ہونا، جب بارشوں اور طوفانی ریلوں کے ساتھ مل جاتا ہے تو یہ زمین کے لیے رحمت نہیں بلکہ زحمت بن جاتا ہے۔ رواں برس کے سیلاب نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم قدرتی آفات کے سامنے کتنا بے بس اور لاپروا ہیں۔ اس آفت نے جہاں انسانی زندگیاں نگلیں وہیں قومی معیشت کو بھی ایسا دھچکا دیا ہے جس سے سنبھلنے میں برسوں لگ جائیں گے۔
حالیہ سیلاب میں سب سے بڑا نقصان انسانی جانوں کا ہوا۔ سرکاری اور عالمی اداروں کے مطابق اب تک 950 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ سینکڑوں کہانیاں ہیں جو المیے کی شدت بیان کرتی ہیں۔ ایک ماں اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش میں بہتے پانی میں ڈوب گئی، کئی بزرگ اپنی پالتو جانوروں کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے اور پانی کی نذر ہو گئے۔ یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ قدرتی آفت صرف جسم نہیں لیتی بلکہ دلوں کو بھی چھلنی کر جاتی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ہسپتالوں میں بیڈ کم پڑ گئے ہیں، ادویات اور ڈاکٹرز کی کمی ہے، اور کئی زخمی افراد بروقت علاج نہ ملنے پر مزید پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ بچوں میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں کیونکہ کھڑا پانی مچھروں اور بیکٹیریا کی افزائش کا باعث بن رہا ہے۔ماہرین صحت خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو ڈینگی، ہیضہ اور ملیریا جیسی بیماریاں مزید جانیں لے سکتی ہیں۔
سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق 29 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں جن میں سے لاکھوں کھلے آسمان تلے یا عارضی خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ گھروں کی چھتیں گر چکی ہیں، دیواریں منہدم ہو گئی ہیں اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ یہ لوگ اب محض سرچھپانے کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری امداد کے منتظر ہیں۔ بچوں کے لیے تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، سکول یا تو تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جانی نقصان کے بعد سب سے زیادہ تباہی مالی اعتبار سے ہوئی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق سیلاب سے 400 ارب روپے (تقریباً 1.4 بلین ڈالر) کا نقصان ہوا ہے۔ اس نقصان کا سب سے بڑا حصہ زرعی شعبے کو سہنا پڑا ہے۔ پاکستان کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے۔ کپاس، چاول، گندم، سبزیاں اور پھل ہماری خوراک اور برآمدات دونوں کے بنیادی ذرائع ہیں مگر حالیہ سیلاب میں 13 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی زیرِ آب آ گئی ہے۔ کسانوں کی سال بھر کی محنت محض چند گھنٹوں میں برباد ہو گئی۔ یہ صرف کسان کا ذاتی نقصان نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے خوراک کی قلت اور مہنگائی کا پیغام ہے۔
کپاس کی تباہی سے ٹیکسٹائل انڈسٹری متاثر ہوگی، چاول اور سبزیوں کی بربادی سے برآمدات گھٹیں گی اور زرِ مبادلہ کی کمی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ سیلاب نے لائیوسٹاک کو بھی نہیں بخشا۔ 6 ہزار سے زائد جانور ہلاک ہو چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ دودھ، گوشت اور چرمی مصنوعات میں بھی شدید کمی واقع ہوگی۔ دیہی علاقوں کے لوگ جن کی گزر بسر گائے بھینس پر تھی اب خالی ہاتھ ہیں۔ انفراسٹرکچر کی تباہی بھی کم نہیں۔ سڑکیں ٹوٹ گئیں، پل بہہ گئے، ریلوے لائنیں کٹ گئیں اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہو گیا۔ امدادی سامان بروقت متاثرین تک نہیں پہنچ پا رہا۔ کئی دیہات مکمل طور پر دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ یہ صرف فوری مسئلہ نہیں بلکہ مستقبل میں ترقیاتی منصوبوں اور معیشت پر بھی بوجھ ڈالے گا۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی حکومت نے ایمرجنسی نافذ کی، امدادی پیکجوں کا اعلان ہوا لیکن عملی اقدامات کی رفتار مایوس کن رہی۔ متاثرین کئی کئی دن تک امداد کے منتظر رہے۔ بعض علاقوں میں امداد پہنچی بھی تو ناکافی تھی۔ شفافیت کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر شکایات ہیں کہ امداد مخصوص افراد یا علاقوں تک محدود رہ گئی جبکہ حقیقی مستحقین محروم رہے۔ یہ صورتحال اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ آخر ہم نے ماضی کے تجربات سے کیا سیکھا؟ کیا 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد ہم نے کوئی پائیدار حکمتِ عملی بنائی؟ کیا ہم نے ڈیم یا ریزروائرز کی تعمیر کی؟ کیا نکاسی آب کا نظام بہتر بنایا؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ماضی کو بھلا دیا اور نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
یہ سیلاب ہمارے لیے ایک تلخ حقیقت ہے مگر ساتھ ہی ایک موقع بھی۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلیاں حقیقت ہیں اور ان کے اثرات ہر سال شدت اختیار کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے پانی ذخیرہ کرنے کے مؤثر منصوبے نہ بنائے، شہری منصوبہ بندی کو بہتر نہ کیا اور زرعی زمینوں کو تحفظ نہ دیا تو آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام سب مل کر ایک طویل المدتی حکمتِ عملی تیار کریں۔ بڑے ڈیموں اور ریزروائرز کی تعمیر، نکاسی آب کے نظام کی ازسرنو بحالی، متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے شفاف اور تیز ترین اقدامات اور عوامی آگاہی مہمات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
سیلاب نے ہمیں ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ انسان کتنا بے بس ہے۔ جانی نقصان نے دلوں کو زخمی کیا ہے اور مالی نقصان نے معیشت کو۔ مگر اس المیے سے سبق لینا ہی اصل دانشمندی ہے۔ ہمیں آج فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم صرف آنسو بہائیں گے یا عملی اقدامات کر کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔