یوسف عابد
پاکستان میں بچوں کی غذائی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کے باعث بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے آخری نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 ء کے مطابق، پانچ سال سے کم عمر کے 64 فیصد بچے آئرن کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ 54 فیصد میں وٹامن اے اور 40 فیصد میں وٹامن ڈی کی کمی پائی جاتی ہے۔اس طرح تقریباً 20 لاکھ بچے غذائی قلت کے باعث موت کے دہانے پر ہیں۔
حکومت پاکستان نے اس مسئلے کے حل کے لیے متعدد اقدامات کئے ہیں،جن میں یونیسف کے تحت بہت سے پروگرام برسوں سے جاری ہیں جبکہ برطانوی ادارہ برائے عالمی ترقی (ڈی آئی ایف ڈی) کے تعاون سے پاکستان فوڈ فارٹیفکیشن پروگرام کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت کھانے کے تیل، گھی اور آٹے میں آئرن، فولک ایسڈ، وٹامن بی 12 اور زنک شامل کئے جا رہے ہیں تاکہ غذائی اجزاء کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔صوبائی سطح پر پنجاب میں بچوں کو سکولوں میں دودھ کے ڈبے دے کر ان میں غذائی قلت کو دور کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے تو بلوچستان میں بچوں کی غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے تین سالہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت صوبے کی 61 فیصد غذائی قلت کا شکار آبادی کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی پروگرام کے تحت 2015 ءتک غذائی قلت کو نصف کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ پاکستان نے اس سلسلے میں کچھ پیش رفت کی، تاہم مقررہ اہداف مکمل طور پر حاصل نہیں کیے جا سکے۔ غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال 7.6 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا تین فیصد نقصان ہوتا ہے۔تاہم غذائی قلت کے پروگرام کو ملینیئم ترقی پروگرام 2030 ءتک میں بھی شامل کر لیا گیا ہے ۔جس میں 5 سال باقی رہ جانے کے باوجود نصف اہداف بھی حاصل نہیں کئے جا سکے ہیں۔
یونیسف نے حال ہی میں پاکستان سمیت 12 ممالک میں شدید غذائی قلت کا شکار 20 لاکھ بچوں کی زندگی بچانے کے لیے فوری فنڈز کی اپیل کی ہے۔ پاکستان میں موجودہ سپلائی مارچ 2025 ءتک ختم ہونے کا خدشہ ہے، جس کے بعد غذائی قلت کو ختم کرنے کی جاری کوششوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں غذائی قلت کی صورتحال تشویشناک ہے، جہاں بچوں میں "اسٹنٹنگ” (قد کی کمزوری) اور "ویسٹنگ” (جسمانی کمزوری) بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہیں۔ "اسٹنٹنگ” صرف ناکافی خوراک کی بات نہیں بلکہ خوراک کی مقدار اور معیار کے ساتھ دیگر عوامل بھی اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ حاملہ خواتین کو دوران حمل مناسب غذا نہ ملنا بچوں میں غذائی قلت اور "اسٹنٹنگ” کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔
پاکستان میں تقریباً 10 ملین بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں۔ صرف 38 فیصد بچے اپنی زندگی کے ابتدائی چھ مہینے تک ماں کا دودھ حاصل کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں نصف سے زائد وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں، 40 فیصد بچوں کو زنک اور وٹامن ڈی کی کمی ہے اور تقریباً 62 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔
ویسٹنگ” کا مسئلہ، جو بچوں کے جسم کو جلد ہی کمزور اور لاغر بنا دیتا ہے، پاکستان میں انتہائی سنگین ہے۔ کئی علاقوں میں ویسٹنگ کی شرح ایمرجنسی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں شدید غذائی قلت کے علاج کے پروگرامز عالمی معیار کے مطابق بہتر ہیں، لیکن یہ صرف پانچ فیصد متاثرہ بچوں تک ہی پہنچ پا رہے ہیں۔ پاکستان میں 8 میں سے 10 بچے اپنی ضرورت کے مطابق اور صحیح قسم کی خوراک نہیں کھاتے، جو ان کی صحت اور نشوونما کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔
یونیسف پاکستان میں بچوں کے غذائی مسائل کے حل کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ حکومت کے ساتھ کے حصول پر کام کر رہا ہے۔ یونیسف غذائی قلت کو کم کرنے کے لیے مائیکرو نیوٹرینٹ سپلیمنٹیشن، فورٹیفیکیشن، اور متنوع غذاؤں کو فروغ دے رہا ہے۔یونیسف پاکستان "ہزار دن کی غذائی کھڑکی پروگرام” پر زور دے رہا ہے، جس کے دوران بچوں کی غذائی کمی کو روکا اور ختم کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ماں کے دودھ کے فروغ کے لیے مختلف مہمات چلائی جا رہی ہیں، جو بچوں کی ابتدائی صحت اور نشوونما کے لیے اہم ہیں۔
پاکستان میں غذائی قلت کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات، جیسے سیلاب اور زلزلے، غذائی بحران کو مزید خراب کر دیتے ہیں۔ یونیسف حکومت کے ساتھ مل کر کمیونٹی مینجمنٹ آف ایکیوٹ مال نیوٹریشن پروگرام کی مضبوطی پر کام کر رہا ہے تاکہ متاثرہ بچوں کو معیاری علاج فراہم کیا جا سکے۔
ماہرین کے مطابق یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں بچوں کی صحت اور غذائی ضروریات کو ترجیح دی جائے تاکہ وہ ایک صحت مند اور روشن مستقبل کی جانب بڑھ سکیں۔اس کے لئے سب سے پہلے غذائی قلت کے نقصانات اور متوازن غذا کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور بیدار کیا جائے۔غذائی اجزاء کی کمی کو پورا کرنے کے لیے فوڈ فارٹیفکیشن پروگرام کو مزید وسعت دی جائے۔دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بنیادی صحت کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ حاملہ خواتین اور بچوں کو مناسب غذا اور طبی امداد مل سکے۔صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے شعبوں میں مربوط حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ غذائی قلت کے مسئلے کا جامع حل ممکن ہو سکے۔
اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 ءمیں بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً 5 فیصد اضافہ ہوا اور 2019 ءمیں ریکارڈ کیے گئے ایک کروڑ 53 لاکھ بچوں کے مقابلے میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے ،جب بچوں کی بھوک سے نمٹنے میں پیش رفت رکنا شروع ہوئی تھی۔
اس سلسلے میں جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنازعات، نقل مکانی، شدید موسمی واقعات اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عالمی سطح پر بچوں کی غذائیت میں کمی کا سبب بنایا ہے۔اس سال بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں میں قحط یا شدید غذائی عدم تحفظ کے تباہ کن حالات کے خطرے سے دوچار ممالک میں پیدا ہونے والے بچے شامل ہیں جن میں جنوبی سوڈان، ہیٹی، مالی اور سوڈان شامل ہیں، جہاں غذائی قلت ملک کی 18 ریاستوں میں سے نصف تک پھیل چکی ہے۔
اس کے علاوہ نومبر کے اوائل میں اس بات کا قوی امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ شمالی غزہ کی پٹی میں قحط پڑ سکتا ہے یا پہلے ہی جاری ہے اور آنے والے مہینوں میں فلسطینی علاقوں میں 3 لاکھ 45 ہزار افراد کو تباہ کن بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مقبوضہ فلسطینی علاقے کو غذائی قلت سے متعلق ایف اے او کے سالانہ اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ انتباہ بھوک سے متعلق معروف عالمی اتھارٹی انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن کی طرف سے آیا ہے۔
’سیو دی چلڈرن‘ میں بھوک اور غذائیت کی عالمی سربراہ حنا اسٹیفنسن کا کہنا ہے کہ اس سال ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد نوزائیدہ بچے یعنی فی منٹ 35 بچے ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوئے جہاں ان کی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی بھوک ایک حقیقت ہے، بھوک کی کوئی حد نہیں ہوتی، یہ بچپن کو ختم کرتی ہے، بچوں کی توانائی کو ضائع کرتی ہے اور ان کا مستقبل چھیننے کا خطرہ بن جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کو کلاس میں کھیلنے یا اپنے دماغ کو وسعت دینے کے لیے آزاد ہونا چاہیے، کسی بھی بچے کو اس بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا اگلا کھانا کب ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں خوراک، غذائیت، صحت کی دیکھ بھال، صاف پانی، صفائی، حفظان صحت، سماجی تحفظ اور ذریعہ معاش کی مدد کی اشد ضرورت والے بچوں اور خاندانوں کو انسانی زندگی بچانے والی خدمات کے لیے فوری فنڈنگ اور محفوظ رسائی کی ضرورت ہے، ہمارے پاس ماضی کی طرح اس وقت غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد کو نمایاں طور پر کم کرنے کے آلات موجود ہیں۔حنا اسٹیفنسن نے مزید کہا کہ اگر ہم بھوک اور غذائی قلت کی بنیادی وجوہات سے نہیں نمٹتے تو ہم بچوں کے لیے کی جانے والی پیش رفت کو پلٹتے ہوئے دیکھیں گے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ خوراک کے بحران میں بچے ہمیشہ سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں اور کھانے کے لیے کافی مقدار اور مناسب غذائی توازن کے بغیر بچوں کو شدید غذائی قلت کا خطرہ ہوتا ہے، غذائیت کی کمی سے ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے، مہلک بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بالآخر یہ موت کا سبب بن سکتی ہے۔
ان ممالک میں جہاں کم از کم 20 فیصد آبادی کو بھوک کا سامنا ہے، کانگو میں اس سال سب سے زیادہ 16 لاکھ بچوں کی غذائی قلت کے ساتھ پیدا ہونے کی توقع کی جا رہی تھی جبکہ کانگو اور عالمی سطح پر تنازعات بھوک کی ایک اہم وجہ بنے ہوئے ہیں۔
سیو دی چلڈرن عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ شدید خوراک اور غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات کو حل کریں جس میں تنازعات کو کم کرنے کے لیے سخت محنت کرنا، موسمیاتی بحران اور عالمی عدم مساوات سے نمٹنے اور صحت، غذائیت اور سماجی تحفظ کے زیادہ لچکدار نظام کی تعمیر شامل ہے۔
غذائی قلت کا خاتمہ پاکستان کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔ حکومت، نجی شعبے اور عالمی اداروں کے مشترکہ اقدامات سے ہی اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔