اکرام بکائنوی
خیبرپختونخوا، جو اپنی حسین وادیوں، بلندیوں پر بسی بستیوں اور دریاؤں کے سنگم کے باعث قدرت کا حسین تحفہ سمجھا جاتا ہے، آج قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ رواں سال مون سون کی شدید بارشوں اور بادل پھٹنے کے واقعات نے اس خطے کو اجاڑ ڈالا۔ دریاؤں کے کنارے بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، سڑکیں اور پل بہہ گئے، کھڑی فصلیں برباد ہوئیں اور سب سے بڑھ کر سینکڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔
یہ المیہ صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی رویوں، انتظامی کوتاہیوں اور ماحولیاتی غفلت کی کہانی بھی سناتا ہے۔حکومتی و غیر ملکی ذرائع کے مطابق صرف خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ۳۵۸ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں بچے، خواتین اور بزرگ بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی ضلع بونیر میں دیکھی گئی جہاں ۲۲۵ سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سوات میں ۲۰، شانگلہ میں ۳۶، مانسہرہ اور بجوڑ میں ۲۲، صوابی میں ۱۷ اور لوئر دیر میں ۵ افراد جاں بحق ہوئے۔اس کے علاوہ ۱۵۰ سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ کئی بستیاں ایسی ہیں جہاں امدادی ٹیمیں تاحال نہیں پہنچ سکیں اور خدشہ ہے کہ لاشیں ملبے اور پانی کے نیچے دبی ہوں ۔
خیبرپختونخوا کی معیشت کا دارومدار بڑی حد تک زراعت پر ہے۔ لیکن سیلابی ریلوں نے کسانوں کی سال بھر کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ مکئی، گندم، سبزیوں اور پھلوں کی فصلیں جڑوں سمیت بہہ گئیں۔ ہزاروں ایکڑ زمین بیکار ہوگئی۔ماہرین زراعت کے مطابق اس تباہی کے باعث صوبے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے وہ چھوٹے کسان جن کے پاس زمین محدود ہے، وہ مکمل طور پر اجڑ گئے ہیں۔ نہ ان کے پاس دوبارہ بیج خریدنے کی سکت ہے اور نہ ہی کھاد یا زرعی ادویات لینے کی گنجائش۔یہی وجہ ہے کہ آنے والے دنوں میں غذائی قلت کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کی بربادی کے باعث صوبہ کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا،سیلابی پانی نے صوبے کے کئی اضلاع کو ملک کے باقی حصے سے کاٹ دیا ہے۔درجنوں پل بہہ گئے، اہم سڑکیں ٹوٹ کر ناقابلِ استعمال ہو گئیں۔بجلی کے کھمبے اکھڑ گئے اور گھنٹوں تک اندھیرا چھایا رہا۔موبائل اور ٹیلی فون سروس معطل رہی، جس کی وجہ سے متاثرین باہر کی دنیا سے کٹ گئے۔یہی وجہ ہے کہ امدادی کاموں میں سب سے بڑی رکاوٹ مواصلات اور رسائی کا فقدان رہا۔
اخبار نویس جب متاثرہ علاقوں میں پہنچے تو آنکھوں دیکھی کہانی نے دل دہلا دیا۔
ایک بونیر کے رہائشی نے بتایا:
"رات کو اچانک پانی آیا، ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ بچے چیخ رہے تھے، عورتیں روتی رہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے رشتہ داروں کو پانی کے تیز دھارے میں بہتے دیکھا۔”
ایک بزرگ شخص نے کہا:
"ہمارا گھر نہ تو دریا کے کنارے تھا اور نہ ہی کسی نالے کے قریب، پھر بھی بادل پھٹنے کے بعد پانی نے سب کچھ بہا دیا۔”
ان بیانات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تباہی صرف دریا کنارے آباد لوگوں تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ علاقے بھی اجڑ گئے جو پہلے کبھی خطرے کی زد میں شمار نہیں ہوتے تھے۔
حکومت نے فوری طور پر ریلیف کیمپ قائم کیے۔ خوراک، ٹینٹ اور دواؤں کی فراہمی شروع کی گئی۔ فوج اور ریسکیو اداروں نے بھی متاثرین کو نکالنے اور لاشوں کی تلاش میں بھرپور حصہ لیا۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہر سال آنے والے سیلاب کے باوجود ہم صرف ہنگامی امداد تک ہی محدود کیوں ہیں؟ مستقل منصوبہ بندی کیوں نہیں کی جاتی؟ حفاظتی بند کیوں نہیں مضبوط کیے جاتے؟ اور قبل از وقت وارننگ سسٹم کیوں فعال نہیں کیا جاتا؟
یہ کہنا درست ہے کہ بارش ایک قدرتی عمل ہے لیکن تباہی کا یہ حجم کئی عوامل کا نتیجہ ہے: جس میںموسمیاتی تبدیلی ماہرین کے مطابق گلوبل وارمنگ نے مون سون بارشوں کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔جنگلات کی کٹائی پہاڑ ننگے ہو گئے ہیں، نتیجہ یہ کہ بارش کا پانی زمین میں جذب ہونے کے بجائے طوفانی ریلے بنا دیتا ہے۔غیر منصوبہ بند آبادیاں دریاؤں اور نالوں کے کنارے گھر تعمیر کیے گئے جو خطرہ بڑھاتے ہیں۔انتظامی غفلت بروقت الرٹس نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں تاخیر ہوئی۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں یہ المیہ دوبارہ نہ دہرایا جائے تو مظبوط حفاظتی بند اور ڈرینیج سسٹم: دریاؤں اور نالوں کے کنارے جدید بند تعمیر کیے جائیں۔ہر ضلع میں فوری امدادی فنڈ قائم ہو جو ہنگامی حالات میں فوری استعمال ہو۔
شجرکاری اور جنگلات کا تحفظ: لینڈ سلائیڈنگ اور کٹاؤ کو روکنے کے لیے جنگلات کو محفوظ کرنا ناگزیر ہے۔موبائل ایس ایم ایس، ریڈیو، مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز اور سوشل میڈیا کے ذریعے بروقت اطلاع دی جائے۔دیہی علاقوں میں لوگوں کو آفات سے بچنے کی عملی تربیت دی جائے۔
خیبرپختونخوا میں آنے والا حالیہ سیلاب ایک کھلی وارننگ ہے کہ اگر ہم نے اپنی پالیسیوں، منصوبہ بندی اور ماحولیاتی رویوں کو نہ بدلا تو آئندہ سال یہ تباہی اس سے بھی زیادہ بھیانک ہو سکتی ہے۔یہ المیہ صرف متاثرین کا نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ سوال یہی ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟ کیا ہم ان لاشوں اور اجڑی بستیوں کو محض ایک خبر سمجھ کر بھول جائیں گے یا مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں گے؟ فیصلہ آج بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔