Untitled 2025 07 15T225437.173

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور کھجور کودرپیش خطرات

مطیع اللہ مطیع

پنجگور 5لاکھ نفوس پر مشتمل وہ شہر ہے، جس کو کھجور کے درختوں نے گھرا ہواہے گرم موسم کی وجہ سے یہاں کے اکثریت زمینداروں کا ذریعہ معاش کھجور ہے. بلوچستان کے پنجگور،تربت ،کیچ،خاران اور واشک میں مختلف اقسام کے کھجور پائے جاتے ہیں اوراعلیٰ اقسام کے کھجور میں بیگم جنگی، موزاتی،ربی،خربہ جو بلوچستان کے ضلع پنجگور،ماشکیل ،تربت وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات میں شدید گرمی ،بے وقت بارشوں اور سیلاب سے زراعت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچاہے ۔

پنجگور کے 30سالہ رہائشی وقار احمد 10سالوں سے زمینداری کے شعبے سے وابستہ ہے۔وقار احمد کہتے ہیں کہ ”پنجگور میں ذریعہ معاش یا تو زراعت ہے یا پھر بارڈر سے منسلک کاروبار ،بے وقت بارشوں سے اکثر کھجور خراب ہوئے ہیں ،کھجور کی کاشتکاری کیلئے توانائی کااستعمال زیادہ ہوتاہے یہاں جدید سہولیات نہیں کہ استفادہ حاصل کیاجاسکے ۔
Untitled 2025 07 15T225444.772
محکمہ زراعت بلوچستان کے شعبہ زرعی اعدادوشمار کے مطابق پنجگور میں ایک لاکھ60ہزارایکڑ رقبے پرکھجورکے باغات ہیں، جو سالانہ تقریبا 12 ارب روپے کی کھجوریں پیدا کرتی ہیں۔ جرمن واچ کی سالانہ کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025 رپورٹ میں کہاگیاہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے 10سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان کاشمار ہوتاہے جبکہ گلوبل گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔

بڑھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے پیش نظر حکومت بلوچستان نے حال ہی میں بلوچستان کلائمیٹ چینج فنڈ قائم کرنے کی منظوری دی ہے، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنا اور پائیدار ترقی کیلئے کوششوں کو مزید بہتر بناناہے۔

پنجگور میں صرف ایک کھجور کی پروسیسنگ پلانٹ ہے۔ پلانٹ کے منیجرمحمد یاسین کہتے ہیں کہ وہ کسانوں سے کھجوریں خریدتے ہیں، ان کوپراسس کرتے ہیں اورپھرپاکستان بھر کے شہروں میں فروخت کیلئے بھیجاجاتاہے ۔ہم کھجور کی کچھ اقسام کو پیسٹ میں تبدیل کر دیتے ہیں جبکہ دیگر مختلف ممالک کو برآمد کر دی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت رابطے کااہم ذریعہ انٹرنیٹ تک رسائی اور مناسب انفراسٹرکچر فراہم کرے تو وہ بین الاقوامی منڈیوں سے زیادہ آسانی سے جڑ سکتے ہیں۔
Untitled 2025 07 15T230015.861
پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی بلوچستان کے ماحولیاتی چیلنجوں کو مزید خراب کر رہی ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت بخارات کی شرح میں اضافہ کر رہا ہے، جو پہلے سے محدود پانی کی سپلائی کو مزید کم کر رہا ہے۔ زراعت صوبے میں ایک اہم ذریعہ معاش خطرے میں ہے، فصلیں اور مویشی دونوں گرمی کے دبا اور پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ بے قاعدہ اور کم بارشیں بھی طویل خشک سالی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے خوراک کی حفاظت اور پائیدار کاشتکاری خطرے میں پڑ رہی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل زراعت مسعود احمد بلوچ کہتے ہیں کہ حکومت نے پروسیسنگ پلانٹ لگا کر مقامی کسانوں کی مدد کے لیے ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "بلوچستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات کا سامنا ہے۔ ہم اس بارے میں آگاہی پھیلا رہے ہیں کہ کس طرح فصلوں کو بچانے اور شدید بارشوں کے دوران پانی کا انتظام کیا جائے۔” یہ پلانٹ مقامی تاجروں کو یورپی اور وسطی ایشیائی منڈیوں سے منسلک کرنے میں مدد کرے گا جہاں کھجوروں کی مانگ زیادہ ہے۔

پنجگور وتربت سے قومی اسمبلی کے رکن پھلین بلوچ کہتے ہیں کہ پنجگور بلوچستان کے سب سے پسماندہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ غریب ہیں اور زراعت پر انحصار کرتے ہیں لیکن پانی کی کمی اور وسائل کی کمی ان کے ذریعہ معاش کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میں نے ان خدشات کو وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ "ہم صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہماری کھجوروں کی حفاظت کریں، فوری اقدامات کریں، بجلی فراہم کریں، پانی کے بحران کو حل کریں، اور ایک موثر موسمیاتی پالیسی اپنائیں”۔

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کیلئے بڑا خطرہ ہے جو انسانی زندگی ،ترقی ،زراعت ودیگر شعبوں کو متاثر کرتی ہے۔

WhatsApp Image 2025 01 07 at 06.25.14 1
مطیع اللہ مطیع
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں