سید خالد جاوید بخاری
جواء انسانی فطرت کے اس پہلو سے جڑا ہے جو قسمت آزمانے اور جلد دولت کمانے کی خواہش کو ابھارتا ہے۔ صدیوں سے دنیا کی مختلف تہذیبوں میں جواء کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ ابتداء میں یہ ایک تفریحی عمل تھا جو مقامی میلوں، تاش کے کھیل، نرد یا جانوروں کی لڑائی جیسے روایتی مظاہر میں نظر آتا تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اور خاص طور پر ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے بعد جوا صرف ایک انفرادی لت نہیں رہا بلکہ ایک منظم صنعت، منی لانڈرنگ کا ذریعہ اور بعض ملکوں کے لیے ریاستی آمدن کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں جواء کئی روایتی شکلوں میں موجود رہا ہے، جن میں مغلیہ دور میں تاش کے کھیل، نرد اور چوسر جیسے کھیل، دیہی میلوں میں مرغوں، کتوں یا گھوڑوں کی لڑائی پر شرطیں لگانا شامل ہے۔ بعض اوقات کسان اپنی فصل، بیج یا زمین تک داؤ پر لگا دیتے تھے۔ یہ سب سرگرمیاں مقامی سطح پر محدود اور برادریوں تک محدود تھیں، لیکن ان کے معاشرتی اثرات گہرے ہوتے تھے۔
ٹیکنالوجی نے اس عمل کو جس انداز میں بدلا ہے، وہ حیران کن ہے۔ آج جوا صرف کسی قمار خانے یا میلوں تک محدود نہیں بلکہ ہر فرد کے موبائل فون یا کمپیوٹر کی سکرین پر دستیاب ہے۔ آن لائن کیسینو، کھیلوں پر شرطیں، کرپٹو کرنسی میں ادائیگی کے نظام اور یہاں تک کہ ویڈیو گیمز پر بھی بیٹنگ کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔
آن لائن کیسینو اور ویب سائٹس کی شکل میں بین الاقوامی کمپنیاں قانونی یا غیرقانونی طور پر مختلف ملکوں میں آپریٹ کرتی ہیں۔ کرکٹ، فٹبال اور دیگر کھیلوں پر بیٹنگ کے لیے "لائیو بیٹنگ” کے فیچرز متعارف کرائے گئے ہیں، جو کھیل کے ہر لمحے پر شرط لگانے کی سہولت دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ جیسے سکینڈل بھی سامنے آئے ہیں۔
جدید دور میں جواء کرپٹو کرنسی کے ذریعے بھی کیا جا رہا ہے، جہاں صارفین بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں کے ذریعے شرطیں لگاتے ہیں۔ یہ ادائیگی کا نظام صارف کی شناخت خفیہ رکھتا ہے اور بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ای-سپورٹس اور گیمنگ کی دنیا میں بھی بیٹنگ عام ہو چکی ہے، جہاں نوجوان ویڈیو گیمز جیسے Counter Strike یا Dota 2 پر بیٹنگ کرتے ہیں۔ Loot Boxes جیسے ڈیجیٹل انعامی ڈبے بھی جوئے کی نئی شکل کے طور پر سامنے آئے ہیں، جن پر دنیا بھر میں قانونی بحث جاری ہے۔
ٹیکنالوجی نے جوئے کو عالمی سطح پر جڑ دیا ہے۔ اب مختلف ممالک کے افراد ایک ہی پلیٹ فارم پر کھیلتے اور شرطیں لگاتے ہیں۔ کرپٹو کرنسی کی بدولت سرحد پار ادائیگیاں آسان ہو گئی ہیں، جبکہ سپانسرشپ اور مارکیٹنگ کے ذریعے جوا کمپنیاں بین الاقوامی کھیلوں کا حصہ بن چکی ہیں۔
پاکستان میں جوئے کی صورتحال پیچیدہ مگر تشویشناک ہے۔ اگرچہ "پریوینشن آف گیمبلنگ ایکٹ 1977” کے تحت جوا غیر قانونی ہے، تاہم آن لائن جوئے کے خلاف اقدامات نہایت کمزور اور غیر مؤثر ہیں۔ پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں آن لائن بیٹنگ نیٹ ورکس، بکی ایجنٹس، کرپٹو والٹس اور خفیہ کال سنٹرز کے ذریعے عالمی جوئے کا جال پھیل چکا ہے۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان، حیدرآباد، پشاور اور کوئٹہ جیسے شہروں میں باقاعدہ نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں۔ کراچی کے گلشن، ڈیفنس اور پی ای سی ایچ ایس کے علاقوں میں کرکٹ بیٹنگ اور آن لائن کیسینو کے نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں، جہاں کرپٹو والٹس کے ذریعے رقوم منتقل کی جاتی ہیں۔ لاہور کے گلبرگ، جوہر ٹاؤن اور ڈیفنس میں پوکر کلبز اور آن لائن بیٹنگ ایجنٹس کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن اور ایف-ایٹ کے علاقوں میں بڑے سپورٹس بیٹنگ نیٹ ورکس سامنے آئے ہیں۔ حتیٰ کہ فیصل آباد، ملتان اور حیدرآباد جیسے نسبتاً چھوٹے شہروں میں بھی انٹرنیٹ کیفے اور موبائل ایپس کے ذریعے جوا پھیل چکا ہے۔ پشاور اور کوئٹہ میں افغان نیٹ ورکس اور کرپٹو حوالہ سسٹمز کے ذریعے یہ سلسلہ جاری ہے۔
ان سرگرمیوں کے سنگین سماجی و معاشی اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ قرض میں ڈوب جاتے ہیں، خاندانی جھگڑے جنم لیتے ہیں، جرائم میں اضافہ ہوتا ہے، اور پیسوں کی غیر قانونی ترسیل سے ریاست کو ٹیکس ریونیو میں نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس اور سائبر کرائم اداروں میں کرپشن کے الزامات بھی ان سرگرمیوں کو مزید تحفظ دیتے ہیں۔
اس تناظر میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ کئی کال سنٹرز، جو بظاہر آئی ٹی یا BPO کمپنیوں کے طور پر رجسٹرڈ ہوتے ہیں، دراصل بین الاقوامی جوئے کی کمپنیوں کے لیے خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ان میں کسٹمر سپورٹ، آئی ڈی ویری فکیشن، اور ادائیگیوں کا نظام شامل ہوتا ہے۔ ان اداروں کے ذریعے VPN، VoIP، اور کرپٹو ٹرانزیکشنز کے ذریعے نہ صرف شناخت چھپائی جاتی ہے بلکہ پیسہ ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں ایسے بیس سے زائد کال سنٹرز پر تحقیقاتی اداروں کی جانب سے چھاپے مارے جا چکے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی کئی مشکوک ایپس اور والٹس بند کیے ہیں، جو ان نیٹ ورکس سے منسلک تھے۔ بھارت، فلپائن اور چین کی بڑی جوئے کی کمپنیاں پاکستانی کال سنٹرز کے ذریعے اپنے بین الاقوامی کلائنٹس کو سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ یہ عمل پاکستان کی معیشت، سائبر سلامتی اور عالمی ساکھ کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے۔
پاکستان کے نوجوان، جو روزگار کی تلاش میں ان کال سنٹرز میں کام شروع کرتے ہیں، اکثر قانونی علم کے بغیر ان غیر قانونی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں، جو بعد ازاں ان کے کیریئر اور ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
اس خطرناک رجحان کی روک تھام کے لیے صرف گرفتاری یا قانون سازی کافی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک جامع قومی پالیسی تشکیل دے، جس میں سائبر کرائم ونگ اور ایف آئی اے کو جدید وسائل فراہم کیے جائیں، کال سنٹرز اور BPO کمپنیوں کی سخت نگرانی کی جائے، کرپٹو کرنسی کی نگرانی کے لیے مؤثر ریگولیشن متعارف کرائے جائیں، اور عوامی آگاہی کے ذریعے اس لت کے خلاف مؤثر مزاحمت پیدا کی جائے۔
ساتھ ہی پاکستان کو بین الاقوامی اداروں جیسے انٹرپول اور FATF کے ساتھ تعاون مضبوط کرنا ہوگا تاکہ سرحد پار جرائم اور مالیاتی بدعنوانی کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا کو قریب کیا ہے، وہیں جرائم کے راستے بھی کھولے ہیں۔ جوا اب صرف انفرادی لت نہیں بلکہ ایک منظم، ڈیجیٹل اور عالمی خطرہ بن چکا ہے، جس کا مقابلہ ایک منظم، مضبوط اور مربوط حکمتِ عملی کے بغیر ممکن نہیں۔
حوالہ جات:….
Smith, G. et al. (2021). The Globalisation of Sports Betting. Routledge.
Gainsbury, S. (2015). Online Gambling and its Globalisation. Springer.
Marshall, J. (1970). Gambling in Ancient Civilizations. Oxford.
FIA Cyber Crime Reports (2019–2024)
Dawn, Express Tribune Investigative Columns
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔