زین العابدین عابد
پاکستان میں یوٹیوبرز اور دیگر سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے خبر رسانی کے اصل مقصد کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کے بیانیے تخلیق کرنے کا رجحان اختیار کر لیا ہے۔ یہ لوگ حقیقی خبروں، عدالتی کارروائیوں اور سرکاری بیانات کو محض "انٹرو” کے طور پر استعمال کر کے جذباتی اور سنسنی خیز مواد تیار کرتے ہیں، جس میں جُگت، لفاظی اور مبالغہ آرائی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس طرح، عوام کو ایک مخصوص سوچ کے تحت ذہنی طور پر یرغمال بنا لیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ بغیر تحقیق کے ان جھوٹے بیانیوں پر یقین کر لیتے ہیں اور ملک کے سیاسی، دفاعی اور معاشی حالات کو غلط زاویے سے دیکھنے لگتے ہیں۔یوٹیوب کے ماڈل میں، جتنے زیادہ لائیکس، ویوز اور سبسکرائبرز ہوں گے، یوٹیوبرز کو اتنے زیادہ ڈالرز ملتے ہیں۔ اس حقیقت نے خبر رسانی کو ایک سنجیدہ ذمہ داری کے بجائے کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں سچ کی جگہ سنسنی خیزی اور جھوٹے بیانیے کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ان کے مقاصد عوام کو درست معلومات فراہم کرنا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔ نتیجتاً، ایسی منفی ذہن سازی اور حکومت مخالف رائے عامہ پیدا کرنے کی کوششیں بڑھتی جا رہی ہیں، جن کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جھوٹ کے خلاف سچ کو سامنے لایا جائے۔
تاہم، ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عوام کی اکثریت اب سچ سننے اور دیکھنے کی عادی نہیں رہی۔ انہیں وہی بیانیہ پسند آتا ہے جو ان کے پہلے سے قائم شدہ خیالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹی خبروں اور من گھڑت بیانیوں کی قانونی گرفت مضبوط بنانا ناگزیر ہو چکا تھا۔ اس تناظر میں، "پیکا ترمیمی ایکٹ 2025” ان یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا پر موجود ان افراد کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے، جو معاشرے میں انتشار اور منفی رائے عامہ بنانے کا کام کر رہے ہیں۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا اطلاعات کے تبادلے کا سب سے تیز ترین ذریعہ بن چکا ہے۔ تاہم، اس کی حیثیت ایک دو دھاری تلوار کی سی ہے، جو ایک طرف معلومات تک فوری رسائی مہیا کرتی ہے، تو دوسری طرف حقیقت اور فسانے کے درمیان لکیر کو مٹا دیتی ہے۔ اگر ہم گہرائی سے جائزہ لیں، تو معلوم ہوگا کہ سوشل میڈیا کی دنیا کسی افسانوی ادب یا فکشن سے کم نہیں، جہاں زیادہ تر مواد، اطلاعات اور بیانیے حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی عوام انہیں تسلیم کر لیتی ہے۔
ادب میں فکشن ایک ایسی صنف ہے جو مصنف کی تخلیقی صلاحیتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ حقیقی واقعات کو اپنے انداز میں بیان کرتا ہے، کہانی کے کردار خود تخلیق کرتا ہے، اور ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیتا ہے جو جذباتی، سنسنی خیز اور قاری کو متاثر کرنے والا ہو۔ بالکل یہی اصول سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوتا ہے، جہاں بیشتر انفلوئنسرز اور ڈیجیٹل کریئیٹرز حقیقت سے ہٹ کر اپنے بیانیے کو سنوار کر پیش کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی معاملے کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ حقیقت پس پردہ چلی جاتی ہے اور عوام ایک فکشنل مگر دلکش کہانی پر یقین کر لیتی ہے۔
افسانہ پڑھنے اور لکھنے والے جانتے ہیں کہ اس تحریر میں کچھ عناصرعام نثری صنف سے مختلف ہوتے ہیں، جیسےجذبات انگیزی، قاری یا ناظر کی دلچسپی بڑھانے کے لیے کہانی میں سنسنی، سازش اور جذبات کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہی طریقہ اپنایا جاتا ہے، جہاں جھوٹے، مبالغہ آمیز یا سنسنی خیز سرخیوں کے ذریعے عوام کو متوجہ کیا جاتا ہے۔ کردار سازی، فکشن میں ہیرو اور ولن تخلیق کیے جاتے ہیں، اور سوشل میڈیا پر بھی کسی شخصیت کو ہیرو اور کسی کو ولن کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے، چاہے حقیقت میں ایسا نہ ہو۔
غیر حقیقی منظرنامہ، فکشن میں ایک خیالی دنیا تخلیق کی جاتی ہے، جہاں ہر چیز مصنف کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اکثر جھوٹی کہانیاں اور بیانیے تشکیل دیے جاتے ہیں جو عوام کو ایک مخصوص نظریہ اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔
ادبی سحر انگیزی، ایک کامیاب افسانہ اپنے قاری کو جکڑ لیتا ہے، چاہے وہ حقیقت پر مبنی نہ ہو۔ اسی طرح، یوٹیوبرز، بلاگرز اور انفلوئنسرز اپنی کہانیوں میں ایسی چاشنی بھر دیتے ہیں کہ لوگ سچائی پر تحقیق کرنے کے بجائے، دیے گئے بیانیے پر اندھا یقین کر لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی دنیا میں وائرل ہونے والی بیشتر معلومات کی کوئی تصدیق شدہ بنیاد نہیں ہوتی۔ مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی موضوعات پر بننے والے وی لاگز اور تحریریں اکثر حقیقت کی بجائے ذاتی رائے اور نظریات پر مبنی ہوتی ہیں۔ چونکہ سوشل میڈیا کا بنیادی مقصد ناظرین کو متوجہ کرنا اور مواد کو زیادہ سے زیادہ وائرل کرنا ہوتا ہے، اس لیے حقیقت کے برعکس جذباتی اور متنازع مواد کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اگر ہم پرنٹ میڈیا اور ٹیلی ویژن چینلز کی بات کریں، تو یہاں خبروں کو شائع یا نشر کرنے کے لیے ایک تصدیقی عمل موجود ہوتا ہے، جہاں کسی بھی خبر کو شائع کرنے سے پہلے اس کی حقیقت جانچنا ضروری ہوتا ہے۔ دوسری جانب، سوشل میڈیا پر ہر فرد خود ساختہ رپورٹر بن کر معلومات شیئر کرتا ہے، جس کی سچائی کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا کی غیر مصدقہ معلومات کے باعث عوام اکثر غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتی ہے، جو معاشرتی انتشار اور غلط فیصلوں کا باعث بن سکتی ہے۔ جھوٹے بیانیے پھیلا کر مخصوص مفادات کے تحت عوام کو تقسیم کیا جاتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے۔ بہت سے غیرذمہ دار افراد بغیر تحقیق کے کسی بھی معلومات کو آگے بڑھاتے ہیں، جو کہ کسی کی عزت و وقار کے خلاف ہو سکتی ہے اور قانونی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔
پیکا ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ عوام آہستہ آہستہ مستند ذرائع یعنی پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلز کی طرف واپس لوٹیں گے، جہاں خبریں کسی فرد کے ذاتی خیالات یا جذبات کی بجائے تصدیق شدہ معلومات پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس طرح، پاکستان میں خبر رسانی کو دوبارہ پیشہ ورانہ اور ذمہ دارانہ دائرے میں لانے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
حکومتی سطح پر ضروری ہے کہ عوام میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ سوشل میڈیا محض ایک فکشن ہے، افسانوی دنیا ہے، جہاں بیشتر مواد حقیقت کی بجائے جذباتی، سنسنی خیز اور من گھڑت کہانیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ بغیر تحقیق اور تصدیق کے ان بیانیوں پر یقین کرنا نہ صرف فرد کی ذہنی نشوونما اور سوچنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور قومی استحکام کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ عوام کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے جھوٹے بیانیوں کے پیچھے بھاگ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں اور نہ ہی اپنی رائے اور کردار کو غیر مصدقہ معلومات کے زیر اثر لائیں۔ اس کے برعکس، حقیقی اور مستند ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کو ترجیح دیں تاکہ ایک باشعور، مثبت اور حقیقت پسند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔