محمد عدنان مجتبیٰ بھٹہ
ضلع مظفرگڑھ صدیوں سے تعلیمی پسماندگی کا شکار رہا ہے،جہالت،فرسودہ رسومات،بیوروکریسی اور عوامی نمائندوں کی کوتاہیاں مظفرگڑھ کی معاشی پسماندگی کی بھی بڑی وجہ رہیں.
سرکار،عوامی نمائندے،صاحب اقتدار و اختیار مظفرگڑھ کی پسماندگی کی وجہ نہ ڈھونڈ پائے تو ایک خدا ترس وڈیرے کو سامنے آنا پڑا،معاملات کو کھنگالا گیا تو تعلیم و شعور کی کمی ہی پسماندگی کی بنیادی وجہ قرار پائی،وڈیرے نے فیصلہ کیا کہ اس کی تو کوئی اولاد نہیں لیکن وہ ضلع کہ غریب بچوں کو تعلیم دلوا کر معاشرے کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کرے گا اس طرح حقوق کی جنگ میں تعلیم کی کمی کے باعث غریب کے بچے اپنے حق سے محروم نہیں رہیں گے.
اسی لیے 5 اکتوبر 1894ء میں سردار کوڑا خان جتوئی نے اپنی وسیع تر جاگیر کا تیسرا حصہ یعنی 97,474 کنال اراضی غریب اور مستحق بچوں کی تعلیم کے لیے وقف کردی.
مخیر اعظم،محسن مظفرگڑھ سردار کوڑے خان جتوئی کی وفات کے بعد غریب اور مستحق بچوں کی تعلیم کے لیے وقف کی جانے والی ہزاروں کنال اراضی اور اس سے حاصل ہونے والی بھاری آمدنی کی بندربانٹ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا.1896-97 میں اراضی کو ڈسٹرکٹ بورڈ مظفرگڑھ (ڈسٹرکٹ کونسل مظفرگڑھ) کے نام کروا دیا گیا.سردار کوڑا خان جتوئی کی اراضی میں سے من پسند افراد کو رقبے الاٹ کئے گئے اراضی سے حاصل ہونے والی آمدنی غریب و مستحق بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کی بجائے اللوں تللوں پر کی جاتی رہی اور علم کے پیاسوں کو سوائے طفل تسلیوں کے کچھ حاصل نہ ہوسکا.
مخیر اعظم،محسن مظفرگڑھ کی وقف شدہ اراضی اور اسکی آمدنی کی ایک صدی کی لوٹ مار پر نہ تو سرکار کو ہوش آیا اور نہ ہی صاحب اقتدار و اختیار کے ضمیر جاگ سکے.بھاری فنڈز موجود ہونے کے باوجود بھی غریب بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی کا ایک صدی پرانا خواب پورا نہ ہو سکا تو 1992ء میں قوم پرست پارٹی کے سربراہ سردار مظفر حسین خان مگسی اور منصور احمد شاہ ایڈووکیٹ نے اعلیٰ عدلیہ کے دروازے پر دستک دی. سپریم کورٹ آف پاکستان کو آگاہ کیا گیا کہ مظفرگڑھ کے غریب بچوں کیساتھ ہاتھ ہوگیا،سردار کوڑے خان جتوئی کے عظیم مقصد کو پس پشت ڈال کر انکی قیمتی اراضی اور اس سے حاصل ہونے والی بھاری آمدنی کا غلط استعمال کیا جارہا ہے اور مستحق غریب حق سے محروم ہیں.
جس کے بعد 26 سال تک یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت رہا،سماعتوں کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان سردار کوڑا خان جتوئی کی دریا دلی،سخاوت اور تعلیم دوستی کی ہمیشہ معترف رہی،معاملات میں بے ضابطگیوں پر نہ صرف سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی سرزنش کی بلکہ سپریم کورٹ کے احکامات پر ہی سردار کوڑا خان جتوئی کی اراضی کا ریکارڈ درست کرنے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اور اکاؤنٹس کو ریگولائز کرنے کی باقاعدہ کوششیں شروع ہوئیں،اس دوران مافیا کے چنگل سے قیمتی رقبہ بھی واگزار کرایا گیا. سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر سردار کوڑا خان جتوئی کی پراپرٹی اور اس سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدنی کی دیکھ بھال کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفرگڑھ کی سربراہی میں منیجمنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی،کئی سماعتوں کے بعد 26 ستمبر 2018ء کو جاری کیے گئے کیس کے فیصلے میں منیجمنٹ کمیٹی کی سفارشات پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے سردار کوڑا خان جتوئی کی اراضی پر قائم سرکاری اور عدلیہ کے دفاتر کو لیز ادا کرنے اور لیز سے حاصل ہونے والی رقم سردار کوڑا خان ٹرسٹ میں جمع کرانے کا حکم جاری کیا.
حکم نامے میں سردار کوڑا خان جتوئی کی اراضی پر قائم سرکاری سکولوں کو لیز کی رقم ادا کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا.سپریم کورٹ آف پاکستان نے سردار کوڑا خان جتوئی کی علم دوستی کو دیکھتے ہوئےہدایات جاری کیں کہ سردار کوڑا خان کے نام سے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ اور پیرامیڈیکل سٹاف کے لیے ٹریننگ سکول قائم کیا جائے جس کے لیے زمین سردار کوڑا خان ٹرسٹ فراہم کرے گا.
عدالتی فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ چونکہ علاقے میں ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی ضرورت ہے اس لئے حکومت پنجاب اور متعلقہ حکام سردار کوڑا خان جتوئی کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ان کے مشن کو آگے بڑھائیں اور پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ اور پیرامیڈیکل ٹریننگ سکول کے لیے مناسب فنڈز مہیا کریں تاکہ ملک کے پسماندہ ترین علاقے کو ترقی دی جا سکے.
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سردار کوڑا خان ٹرسٹ کے اکاؤنٹس کا باقاعدہ آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے منتخب کردہ نمائندہ کرے گا اور آڈٹ رپورٹ نہ صرف ٹرسٹ کی ویب سائٹ پر لگائی جائے گی بلکہ عدالت کے کے معائنے کے لئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس بھی جمع کروائی جائیگی. عدالت عظمٰی نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ سردار کوڑے خان جتوئی کی وقف کردہ پراپرٹی کی لیز میں منیجمنٹ کمیٹی کی جانب سے مارکیٹ ویلیو کے مطابق متعین کردہ اضافہ کیا جاتا رہے گا.
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں قائم کی گئی منیجمنٹ کمیٹی کی سفارشات کو بھی عدالتی حکم کا حصہ بنادیا اور عدالتی حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرنے کے احکامات جاری کیے اور ساتھ یہ بھی عدالتی فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ اگر مذکورہ سفارشات کے علاوہ بھی کوئی نئے حالات پیدا ہوں تومناسب آرڈر کے حصول کے لیے منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفرگڑھ سپریم کورٹ کو درخواست دے سکتے ہیں.
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد پنجاب حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن قوم پرست رہنما مظفر حسین خان مگسی کے مطابق بیوروکریسی کی جانب سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرایا جارہا،سردار کوڑا خان جتوئی کی اراضی کا غلط استعمال کیا گیا،ہزاروں ایکڑ قیمتی اراضی ابھی بھی ناجائز قابضین کے قبضے میں ہے جبکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے محکمہ ریونیو کی ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر سردار کوڑا خان جتوئی کی ہزاروں کنال اراضی کے ریکارڈ میں ردوبدل کی گئی.
مظفر حسین خان مگسی کا کہنا ہے کہ ڈی او سی مظفرگڑھ کے سروے میں سردار کوڑے خان جتوئی کی کی 29 ہزار 193 کنال سے زائد اراضی بنجر اور دریابرد ظاہر کی گئی گی لیکن یہ اعداد و شمار درست نہیں. ان کا کہنا تھا کہ مخیراعظم محسن مظفرگڑھ سردار کوڑا خان جتوئی کی قیمتی پراپرٹی کی لوٹ مار میں بیوروکریسی کی بدنیتی شامل تھی،مظفرگڑھ،علی پور اور کوٹ ادو میں ضلع کونسل کی زمینوں پر سردار کوڑا خان کی اراضی سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدنی سے سکول قائم کرکے انہیں کاروباری اداروں میں تبدیل کردیا گیا جہاں صرف امراء اور صاحب حیثیت لوگوں کے بچے ہی مہنگی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں جبکہ ضلع کونسل ان سکولوں کو اپنی ملکیت قرار دیتا ہے.
مظفر حسین خان مگسی کے مطابق 97 ہزار کنال سے زائد اراضی وقف کیے جانے کے باوجود بھی ضلع مظفرگڑھ کے غریب بچے تاحال بھی مفت اور معیاری تعلیم سے محروم ہیں،انہوں نے سردار کوڑا خان کی وقف شدہ پراپرٹی کی نگرانی کرنے والی منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفرگڑھ سے اپیل کی ہے کہ محسن مظفرگڑھ کی اراضی کے ریکارڈ میں کی جانے والی ردوبدل کی تصحیح کی جائے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے عین مطابق غریب بچوں کومفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے سردار کوڑا خان کے کروڑوں روپے مالیت کے ٹرسٹ کو فعال کیا جائے.
97 ہزار 474 کنال اراضی مستحق اور غریب بچوں کی تعلیم کے لیے وقف کرنے کے باوجود بھی مخیراعظم و محسن مظفرگڑھ سردار کوڑا خان جتوئی کا ایسے پڑھے لکھے معاشرے کا خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا جہاں غریب گھرانوں کے بچوں کو بھی ترقی کے مساوی مواقع میسر آسکیں.
ملک کی سب سے بڑی عدالت میں لڑی جانے والی طویل عدالتی جنگ کے بعد بھی سامنے آنے والا تاریخی عدالتی فیصلہ بھی تاحال عملدرآمد کا منتظر ہے اور بیوروکریسی کے روایتی تاخیری ہتھکنڈوں اور حربوں نے لاکھوں غریب بچوں کو کو تاحال ان کے حق سے محروم کررکھا ہے. ایسے میں ضلع مظفرگڑھ کے ماہرین تعلیم،سیاسی،سماجی و مذہبی شخصیات حکومت وقت سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب ڈیڑھ صدی قبل پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک وڈیرہ بچوں کی تعلیم کی افادیت کو سمجھ سکتا ہے تو اہل اقتدار غریب بچوں کو ان کا بنیادی حق فراہم کرنے میں تاحال ناکام کیوں ہیں؟
سینیئر صحافی اور جنگ/جیو مظفرگڑھ سے وابستہ ہیں