اکرام بکائنوی
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک اور بڑے قدرتی بحران سے گزر رہا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں سیلابی پانی نے بستیاں اجاڑ دیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، کھیت کھلیان ڈوب گئے اور معیشت پر ایسا کاری وار ہوا جس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ اگرچہ پاکستان میں سیلاب کوئی نیا واقعہ نہیں، لیکن موجودہ صورتحال نے اس امر کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئر پگھلاؤ، غیر منصوبہ بندی اور کمزور ڈھانچہ جاتی پالیسیوں نے ہمارے ملک کو کس قدر غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
رواں برس کا سب سے بڑا نقصان پنجاب میں ہوا، جہاں ستلج، راوی اور چناب ندیوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق صرف پنجاب میں تقریباً بارہ لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائد لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑے جانے نے صورتحال کو مزید خطرناک بنایا، جس کے بعد جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔حکومت پنجاب نے تقریباً 700 ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں جہاں متاثرین کو خوراک اور پینے کا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ 265 میڈیکل کیمپس بھی قائم کیے گئے تاکہ وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ لیکن اس کے باوجود متاثرین کی بڑی تعداد اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا ہمیشہ سے مون سون بارشوں اور گلیشیئر کے پگھلاؤ سے پیدا ہونے والے خطرات کی زد میں رہا ہے۔ اس بار بھی بونیر، سوات اور شانگلہ کے اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ صرف بونیر میں 150 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ ہزاروں مکانات اور رابطہ سڑکیں سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئیں۔مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امدادی کارروائیوں میں شریک ایک ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہو کر گر گیا، جس میں پانچ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اس واقعے نے یہ سوال کھڑا کر دیا کہ آیا ہمارے ادارے ایسے ہنگامی حالات کے لیے کتنا تیار ہیں۔
نئے خطرات کے دہانے پرپنجاب میں سیلابی پانی کے مسلسل بہاؤ کے بعد اب سندھ کو خطرات لاحق ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے اور نشیبی علاقے زیر آب آ رہے ہیں۔ اگر اگلے چند دنوں میں مزید بارشیں ہوئیں یا بھارت کی جانب سے پانی کا اخراج بڑھا تو سندھ میں بڑے پیمانے پر تباہی کا خدشہ ہے۔بلوچستان میں بھی پہاڑی علاقوں میں موسلا دھار بارشوں سے ندی نالے بپھر گئے ہیں۔ اگرچہ وہاں نقصانات پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نسبت کم ہیں، لیکن بنیادی ڈھانچے کی کمزوری اور مواصلاتی نظام کی بندش نے لوگوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
جون 2025ء سے اب تک ملک بھر میں 800 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مویشی ہلاک ہو گئے، جو کہ دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔زرعی زمینوں کی تباہی نے آنے والے مہینوں میں غذائی قلت اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا الارم بجا دیا ہے۔ چاول، کپاس اور گنے کی فصلیں بڑے پیمانے پر ضائع ہو چکی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، پاکستان کو اس سیلاب کے باعث اربوں ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
جس کی بنیادی وجوہات کا تحقیقی تجزیہ کریں تو سب سے پہلے امر موسمیاتی تبدیلی کا درپیش ہے، کیونکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ شدید بارشوں کا غیر معمولی تسلسل اور گلیشیئر کا تیز پگھلاؤ اسی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں جنگلات کی شرح میں خطرناک کمی آئی ہے۔ درخت نہ صرف بارش کے پانی کو جذب کرتے ہیں بلکہ زمین کو کٹاؤ سے بھی بچاتے ہیں۔ جنگلات کے خاتمے نے سیلابی ریلوں کو مزید تباہ کن بنا دیا۔ندی نالوں اور دریاؤں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات اور رہائش گاہوں نے سیلابی پانی کے قدرتی راستوں کو مسدود کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی بارش بھی بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث بنتی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں ڈیموں اور واٹر ریزروائرز کی شدید کمی ہے۔ اگر 1960ء کی دہائی کے بعد مزید ڈیم بنائے جاتے تو آج سیلابی صورتحال مختلف ہوتی، قومی آفات مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)، صوبائی ادارے (PDMA)، فوج اور ریسکیو 1122 کے اہلکار اس وقت ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو اور ریلیف آپریشنز میں مصروف ہیں۔ لاکھوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، لیکن متاثرہ علاقوں کی وسعت اور آبادی کے حجم نے امدادی کارروائیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔
وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ مستقبل میں مزید ڈیم اور واٹر ریزروائرز تعمیر کیے جائیں گے تاکہ پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں سے بھی امداد کی اپیل کی گئی ہے۔
مستقبل میںایسےسانحات سے بچنے کے لیےضروری ہے کہ سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے فوری طور پر نئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف سیلاب پر قابو پایا جا سکے بلکہ بجلی اور زراعت کے لیے بھی پانی میسر ہو۔ملکی سطح پر بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے تاکہ بارش کے پانی کو جذب کیا جا سکے اور زمین کو کٹاؤ سے بچایا جا سکے۔دریاؤں اور نالوں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات کو ختم کر کے قدرتی راستے بحال کیے جائیں۔شہری علاقوں میں نکاسی آب کا مؤثر نظام قائم کیا جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں جو دریاؤں کے قریب تعمیرات کو روک سکیں۔جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے نظام کو مزید فعال کیا جائے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔
پاکستان اس وقت ایک بڑے انسانی اور ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے۔ اگرچہ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے لیکن اس کے اثرات کو کم کرنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ بروقت منصوبہ بندی، ڈھانچہ جاتی بہتری، اور عوامی شعور میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو آئندہ نسلوں کو ایسے بحرانوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔یہ لمحہ ہمارے لیے محض افسوس یا ہمدردی کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے اپنی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی میں بنیادی تبدیلیاں نہ کیں تو آنے والے برسوں میں ایسے سیلاب معمول بن جائیں گے اور پاکستان کی بقاء ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔