لاہور: ہائیکورٹ نے آئینی مقدمے میں بڑا فیصلہ سناتے ہوئے ہوم سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ شہری عبدالرحمٰن فریاد کے لیے ایسا پولیس کردار سرٹیفکیٹ جاری کریں جس میں کسی بھی فوجداری مقدمے یا بریت شدہ ایف آئی آر کا کوئی حوالہ شامل نہیں ہو۔ عدالت نے واضح کیا کہ بریت کے باوجود شہری کو مجرمانہ تاریخ سے جوڑنا آئینِ پاکستان کے تحت انسانی وقار کے حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
کیس کے مطابق، عبدالرحمٰن فریاد پر اپریل 2024ء میں تھانہ نواں کوٹ، لاہور میں پتنگ بازی کے الزام میں ایف آئی آر نمبر 1254/2024 درج کی گئی تھی۔ تفتیش کے بعد مقدمہ عدالت میں چلا، مگر 20 دسمبر 2024ء کو مجسٹریٹ سیکشن 30 لاہور نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 249-اے کے تحت ملزم کو بری قرار دے دیا۔ فیصلے میں عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ الزامات میں نہ تو اخلاقی پستی شامل تھی اور نہ ہی ریاست مخالف کوئی جرم۔
اس کے باوجود، برطانیہ جانے کے لئے پولیس کی جانب سے جاری کردہ کردار سرٹیفکیٹ میں مذکورہ ایف آئی آر کا حوالہ درج کر دیا گیا، جس سے شہری کے نام پر مجرمانہ داغ تاثر قائم ہوا۔ عبدالرحمٰن فریاد نے اس عمل کو عدالت میں چیلنج کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ اقدام اس کی بریت کے مقصد کو ناکام بناتا ہے۔
عدالت نے پولیس رولز 1934 اور آئین کے آرٹیکل 14 کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق میں اس کی عزتِ نفس کا تحفظ شامل ہے۔ "ایک بار جب عدالت کسی شخص کو بری قرار دے دے، تو اسے ہر لحاظ سے بے گناہ تصور کیا جائے، اور اس کے خلاف کوئی منفی تاثر یا سرکاری ریکارڈ میں مجرمانہ حوالہ نہیں رہنا چاہیے،” فیصلے میں کہا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے ہوم سیکرٹری پنجاب کو فوری طور پر نیا کردار سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس میں ایف آئی آر نمبر 1254/2024 کا کوئی ذکر شامل نہ کیا جائے۔ مزید برآں، عدالت نے حکم کی کاپی آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی بھیج دی تاکہ مستقبل میں ایسے معاملات میں شہریوں کے بنیادی حقوق کا مکمل احترام یقینی بنایا جا سکے۔