لاہور: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے آج ایک پریس کانفرنس میں اپنی حالیہ رپورٹ ‘پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال 2024’ کے تناظر میں پنجاب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر روشنی ڈالی۔
رپورٹ کے تفصیلات بتاتے ہوئے کونسل ممبر حنا جیلانی نے کہا کہ سال 2024ء کے عام انتخابات میں ووٹروں کی تعداد اور ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ تو ہوا، لیکن مجموعی ٹرن آؤٹ میں کمی دیکھنے میں آئی۔ اگرچہ خواتین کی اسمبلیوں میں نمائندگی دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی، لیکن پنجاب اسمبلی بدستور خلل اندازی، اپوزیشن کی رائے کو نظرانداز کرنے اور عجلت میں قانون سازی جیسے مسائل کا شکار رہی۔ سال 2024 میں اسمبلی کی کارروائیاں شدید بدنظمی کا شکار رہیں۔ ایوان میں غیر مناسب حرکات کے خلاف خواتین ارکانِ اسمبلی نے واک آؤٹ کیا، جبکہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ میں قانونی رکاوٹیں حائل رہیں۔
انہوں نے کہا کہ جون میں عجلت میں منظور کیے گئے پنجاب ہتکِ عزت ایکٹ 2024ء کو انسانی حقوق کے نیٹ ورکس نے آزادی اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بعدازاں اس قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ پنجاب حکومت نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے سڑکیں بند کیں، جس سے سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں دونوں کے نقل و حرکت کے حق کی خلاف ورزی ہوئی۔
مذہبی اقلیتوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ بھی جاری رہا، جن میں سرگودھا میں ایک مسیحی شخص کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت شامل ہے، جس پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ احمدی برادری نے منظم امتیاز اور عدم تحفظ کے باعث انتخابی عمل مکمل دستبرداری اختیار کر لی۔
رپورٹ میں اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ کوئٹہ-تافتان شاہراہ پر پنجاب کے نو شہریوں کو قتل کردیا گیا، جبکہ پنجگور، بلوچستان میں مبینہ شدت پسندوں کے حملے میں سات پنجابی مزدور جاں بحق ہوئے۔
ملک بھر میں بچوں سے بدسلوکی کے سب سے زیادہ کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔ صرف جنوری تا جون 2024 کے دوران ملک بھر میں پیش آنے والے 1,630 واقعات میں سے 78 فیصد کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس عرصے میں جنسی زیادتی کے 2,506، اغوا کے 2,189، بچوں کی اسمگلنگ کے 457 اور جسمانی تشدد کے 455 واقعات درج ہوئے۔ فیصل آباد میں 11 سالہ گھریلو ملازمہ عائشہ کی ہلاکت اور سرگودھا و لاہور میں اسی نوعیت کے واقعات نے گھروں میں کم عمر ملازمین پر ہونے والے تشدد کو بے نقاب کیا۔
ذہنی معذور خواتین کے ساتھ جنسی تشدد، گھریلو تشدد کے نتیجے میں ہلاکتیں (جن میں حاملہ خواتین بھی شامل تھیں)، اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات سال بھر جاری رہے۔ لاہور کے ایک نجی کالج میں مبینہ زیادتی کے ایک واقعے میں ایچ آر سی پی نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ واقعے کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کا ایکٹ 1929 میں عمر کی بنیاد پر صنفی تفریق کو آئین کے منافی قرار دیا، تاہم اس حوالے سے جامع قانون سازی تاحال تعطل کا شکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مزدوروں کے حقوق اور ماحولیاتی مسائل کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ صفائی کے کارکنان بدستور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور رہے۔ دریں اثنا، صوبائی حکومت نے نومبر میں لاہور اور ملتان میں ریکارڈ کی گئی خطرناک آلودہ ہوا کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا۔
اس موقع پر وائس چیئر پنجاب راجہ اشرف اور دیگر بھی موجود تھے.