انیلہ اشرف
پاکستان میں خواتین پر تشدد اور ان کے خلاف جرائم کی شرح میں واضح کمی نظر نہیں آ رہی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، جو خواتین کو انصاف فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، نہ صرف ملزمان کے خلاف کارروائی سے گریز کرتے ہیں بلکہ متاثرین پر دباؤ ڈال کر انہیں جرگہ یا پنچائیت کے غیر قانونی نظام کے تحت مسئلہ حل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ عمل انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے اور عدم برداشت و انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے.
خواتین پر تشدد میں یقینی طور پر کمی نہیں ہو رہی ہے،تاہم قانون نافذ کرنے والے اور متاثرہ خواتین کو انصاف دینے والے ادارےملزموں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیں فائدہ دینے کی آڑ میں ان خواتین کو جرگہ اور پنچائیت میں جاکر فیصلہ کرانے پر اصرار کرتے ہیں،جس سے عدم برداشت اور انتہا پسندانہ رویوں کو تقویت ملتی ہے.حالیہ دنوں میں متعدد ایسے واقعات پر تشدد اور انتہا پسند تھے، کہ جس کے بعد میرا ذہن متواتر الجھن کا شکار ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جرگہ اور پنچائیتی نظام غیر قانونی ہے،تو تشدد کا شکار خواتین پر تھانوں اور عدالتوں سے انصاف لینے کی بجائے ان کی اہمیت پر زور کیوں دیا جاتا ہے۔چند روز قبل پشاور میں ہماری صحافی خواتین بہنیں ناہید جہانگیر،سلمیٰٰ جہانگیر اور رانی عندلیب پر شادی کی تقریب سے واپس گھر آتےہوئے حملہ کیا گیا جس کے دوران میں زخمی ہوئی ہیں اور پاکستان بھر سےصحافتی تنظیموںاور صحافیوں نے واقعہ کی مذمت کی،تاہم واقعہ کے کچھ دن بعد جب ناہید جہانگیر اپنی صحافی بہنوں کے ہمراہ پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کر رہی تھیں تو انہوں نے دکھ اور افسوس کے ساتھ شکوہ کیا کہ پولیس ملزموں کے خلاف سخت ایکشن لینے سے گریزاں ہے،بلکہ ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
اسی طرح جنوبی پنجاب کے علاقہ یزمان کے ایک چک میں ہندو کمہونٹی سے تعلق رکھنے والی 7 بچوں کی ماں شمو مائی کو شوہر نے شادی کے 10 سال بعد تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے زبردستی گھر سے بیدخل کر دیا،جس کی شکایت لے کر وہ مقامی پولیس سٹیشن اپنے بھائی کے ہمراہ پہنچی تو پولیس نے اس کی شکایت رجسٹرڈ کرنے کی بجائے زور دیا کہ وہ برادری کے اکٹھ (پنچائیت)میں جائے۔ان دونوں واقعات سے مجھے یاد آیا کہ سال 2019ء میں سپریم کورٹ نے جرگہ اور پنچایت کا نظام غیر آئینی اورانسانی حقوق کے عالمی وعدوں کے خلاف قرار دیا تھا۔فیصلے میں کہا گیاتھا کہ جرگہ اور پنچائیت کے نظام انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (یو ڈی ایچ آر)، سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے تمام فورم پر خاتمے پر موجود کنونشن (سی ای ڈی اے ڈبلیو) کے تحت پاکستان کی بین الاقوامی وعدوں کے خلاف ہے۔اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ یہ یقین دہانی پاکستان پر ایک ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر کسی کی عدالت یا ٹربیونل تک رسائی ہے اور قانون کے سامنے ہر شخص مساوی ہے۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ فیصلہ خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن (این سی ایس ڈبلیو)سمیت حکومت خیبرپختونخواہ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر دیا گیا تھا۔
مسئلے کی اصل حقیقت یہ تھی کہ قبائلی علاقوں خاص طور پر خیبرپختونخوا کے شمالی اور پنجاب،سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے کچھ دیہی علاقوں میں ’عمائدین کے کونسل‘ یا ’کینگرو کورٹس‘ کی شکل میں غیر رسمی لیکن متوازی قانونی نظام موجود ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا تھاکہ اگر کسی فیصلے پر ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر کارروائی کے پابند ہیں جبکہ ایسے آئین سے متصادم جرگے یا پنچایت کی معاونت کرنے والے بھی جرم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے 7 سال بعد بھی قانون کی حکمرانی پر سوال کھڑے ہیں تو تھانہ کلچر ریفارمز کیا صرف تھانون کی عمارتوں کی تزئین و آرائش تک محدود ہیں اور پاکستان کی خواتین چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل،طبقہ یا صوبے سے ہو ان سے پولیس کا برتاؤ آج بھی غیر پیشہ وارانہ ہے.پولیس افسران کی ٹریننگز،خواتین عملہ اور انصاف کے دعوے خواتین کو بدستور عدم تحفظ میں مبتلا کیے رکھے ہوئے ہیں،تو دوسری طرف مجھے آج یہ بھی سمجھ میں آیا کہ کثیر القوانین رکھنے والے ہمارے پاکستان میں قانون کے رکھوالے انہیں الماریوں کی زینت ہی سمجھتے ہیںاور کبھی پڑھ کرسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.
پاکستان میں تھانہ کلچر کی اصلاحات اکثر صرف ظاہری تزئین و آرائش تک محدود رہتی ہیں۔ پولیس کے اندر خواتین عملے کی کمی، مناسب تربیت کا فقدان، اور شکایات کے ازالے میں تاخیر جیسے مسائل انصاف کی فراہمی کو محدود کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، جرگہ اور پنچائیت جیسے غیر رسمی نظام متاثرین کو فوری حل کا دھوکہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ نظام نہ صرف غیر قانونی بلکہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارا ملک خواتین پر تشدد کے حوالے سے بدنام سمجھا جاتا ہے،ورلڈ اکنامک فورم کی جینڈر انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا دنیا میں خواتین پر تشدد کی بہتری کی صورتحال میں 142واں نمبر ہے۔پاکستان میں صنفی تشدد کے حوالے سے میڈیا رپورٹس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے علاوہ کو ئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہوتا،البتہ صرف پولیس رپورٹس ہیں جو کئی گنا کم ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ واقعی تشدد میں کمی آرہی ہے جس کا جواب ہمشہ منفی ہی آیا ہے کیونکہ کرونا کے دوران خواتین پر تشدد میں خطرناک اضافہ ہوا ہے،جس سے عدم برداشت کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور جرگہ و پنچائیت جیسے غیر آئینی نظام کی موجودگی انصاف کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر سختی سے عمل کرے، پولیس کی اصلاحات کو عملی جامہ پہنائے، اور عوام کو یہ شعور دے کہ انصاف صرف آئینی اور قانونی ذرائع سے ہی ممکن ہے۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف خواتین کے خلاف جرائم جاری رہیں گے بلکہ ریاست کا قانونی ڈھانچہ بھی کمزور ہوتا رہے گا۔