سید خالد جاوید بخاری
پاکستانی صحافت عرصہ دراز سے مقامی خبروں، سیاسی جھگڑوں، اور طاقتور عالمی اداروں کی پروپیگنڈا بیانیہ نگاری تک محدود رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے دنیا بھر میں جرنلزم کو ڈیجیٹلائزیشن، ڈیٹا جرنلزم، اور تحقیقی رپورٹنگ کی سمت آگے بڑھایا، لیکن پاکستان میں یہ تبدیلی محدود اور پرانے انداز کے تابع رہی۔ اس لئے پاکستان کی صحافت کے مسائل، ٹیکنالوجی کے ناکافی استعمال، اور مستقبل کے امکانات پر بہت زیادہ بحث اور اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں صحافت کا آغاز نوآبادیاتی دور سے ہوا، جہاں اخبار بنیادی طور پر سیاسی اور مقامی خبروں پر مرکوز رہے۔ آزادی کے بعد بھی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا زیادہ تر سیاسی کشمکش، حکومتی پالیسیوں اور طاقتور حلقوں کی تشہیر تک محدود رہے۔ اس رجحان نے صحافت کو تحقیقی (investigative) اور علمی (research-based) رپورٹنگ سے دور رکھا۔جدید دنیا میں صحافت صرف خبر رسانی تک محدود نہیں رہی بلکہ علم و تحقیق کی عوامی رسائی، ڈیٹا جرنلزم، اور پالیسی اثرات تک وسیع ہو چکی ہے (Ittefaq et al., 2021)۔ تاہم، پاکستان میں یہ شعبہ تاحال سیاسی مفادات اور تجارتی دباؤ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
پاکستانی صحافت کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ لوکل خبروں اور سیاسی جھگڑوں کی اجارہ داری ہے. پاکستانی میڈیا میں زیادہ تر کوریج سیاسی جلسوں، حکومتی تبدیلیوں اور تنازعات پر مرکوز ہے۔ تحقیقی رپورٹنگ اور عوامی فلاحی موضوعات پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جیسا کہ Nazir & Gillani (2020) لکھتے ہیں:“Organizational sources, pressure groups, personal biases, job threats, economic constraints … impact media content in Pakistan.” . عالمی اجارہ داروں کی واہ واہ کرتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات اور اداروں کی خبروں میں بھی صحافت زیادہ تر یکطرفہ بیانیہ بیان کرتی ہے۔ غیر جانب دار تحقیقی رپورٹنگ کے بجائے طاقتور اداروں کی ترجمانی کو فوقیت دی جاتی ہے (Eijaz et al., 2020)۔تحقیقی صحافت کی کمزوری کے باعث پاکستان میں تحقیقی جرنلزم محدود ہے کیونکہ میڈیا مالکان زیادہ لاگت اور سیاسی دباؤ سے بچنے کے لیے اسے ترجیح نہیں دیتے۔ Alia et al. (2025) کے مطابق:“Despite journalists indicating a sound awareness of data journalism and its importance, they showed its future is still being determined due to the current crisis in Pakistani media organizations.”.
ٹیکنالوجی کے تناظر میں پاکستانی صحافت میں ڈیٹا جرنلزم کا فقدان ہے اور دنیا بھر میں ڈیٹا جرنلزم عوام کو پیچیدہ حقائق آسان طریقے سے سمجھانے میں مددگار ہے، مگر پاکستان میں تکنیکی مہارت اور ادارہ جاتی حمایت کی کمی اس شعبے کو پنپنے نہیں دیتی (Alia et al., 2025)۔میڈیا کنوریژن کی محدودیت کیو جہ سے پاکستانی میڈیا نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو اپنایا ضرور ہے، مگر زیادہ تر صرف تجارتی مقاصد کے لیے۔ Ittefaq et al. (2021) کے مطابق:“The adoption of convergence in Pakistan has been largely based on economic and commercial concerns rather than attempts to improve the quality of media content.”. مِس انفارمیشن اور سوشل میڈیا کے باعث ڈجیٹل ٹیکنالوجی نے پاکستان میں جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کے پھیلاؤ کو بھی تقویت دی ہے۔ Haroon et al. (2021) کے مطابق: “Common elements used by fake news creators in Pakistan included: appeals to emotion, conspiracy theories, political and religious polarization, incorrect facts, and impersonation of credible sources.”
صحافت کسی بھی معاشرے میں عوامی شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں خبروں کی نوعیت عوام کو سنجیدہ علمی مباحث اور سائنسی ترقی تک رسائی فراہم نہیں کرتی۔ نتیجتاً عوامی سطح پر سیاسی بحث و مباحثہ تو عام ہے لیکن سائنسی شعور، تحقیقی سوچ اور تنقیدی فکر کمزور ہے (Ali et al., 2023)۔صحافت کسی بھی معاشرے کی آنکھ اور زبان ہوتی ہے، جو عوام کو حقائق تک رسائی دیتی اور حکمرانوں کو جواب دہ بناتی ہے۔ تاہم پاکستان میں موجودہ دور کی صحافت کئی طرح کی رکاوٹوں کا شکار ہے۔ یہ رکاوٹیں صرف ادارہ جاتی سطح پر ہی نہیں بلکہ صحافیوں کی انفرادی زندگی اور ان کے تحفظ کو بھی براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔
پاکستانی میڈیا کا بڑا حصہ سرکاری اور نجی اشتہارات پر انحصار کرتا ہے۔ یہ ماڈل نہ صرف اداروں کی آزادی کو محدود کرتا ہے بلکہ بعض اوقات خبر کے معیار اور ترجیحات پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔میڈیا ادارے اکثر حکومتی دباؤ، پالیسی مداخلت اور سنسرشپ کا سامنا کرتے ہیں۔ اس دباؤ کے نتیجے میں آزادانہ رپورٹنگ متاثر ہوتی ہے اور کئی موضوعات پر کھل کر بات نہیں کی جا سکتی۔(Eijaz et al., 2020) کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کو براہِ راست دھمکیوں، تشدد اور بعض اوقات جان لیوا حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحفظ کی کمی کے باعث صحافی اکثر خود سنسرشپ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ڈیجیٹل صحافت اور ڈیٹا جرنلزم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باوجود پاکستان کے اکثر صحافی جدید آلات اور تربیت سے محروم ہیں، جس سے ان کی رپورٹنگ محدود رہ جاتی ہے۔تحقیقی صحافت مہنگا اور وقت طلب عمل ہے۔ گرانٹس اور ادارہ جاتی معاونت نہ ہونے کی وجہ سے صحافی اس جانب کم مائل ہوتے ہیں، جس سے گہرائی میں جا کر حقائق سامنے لانے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ یونیورسٹیوں اور میڈیا اداروں میں جدید کورسز جیسے ڈیٹا جرنلزم، تحقیقی رپورٹنگ اور ڈیجیٹل سٹوری ٹیلنگ شامل کیے جائیں۔ یہ کورسز صحافیوں کو نئے تقاضوں کے مطابق تیار کریں گے۔اشتہارات پر انحصار کم کرنے کے لیے سبسکرپشن بیسڈ ماڈل، ریڈر فنڈنگ اور کراؤڈ فنڈنگ جیسے متبادل طریقے اپنائے جائیں تاکہ ادارے آزاد رہ سکیں۔مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز اور آزاد ادارے تحقیقی صحافت کے لیے خصوصی فنڈز اور گرانٹس فراہم کریں۔ اس طرح صحافی مالی دباؤ سے آزاد ہو کر معیاری رپورٹنگ کر سکیں گے۔صحافیوں کے لیے مضبوط قوانین اور ان پر مؤثر عملدرآمد ضروری ہے۔ ایسے قوانین بنائے جائیں جو نہ صرف ان کے جان و مال کی حفاظت کریں بلکہ انہیں پیشہ ورانہ آزادی بھی دیں۔عوام کو یہ شعور دینا کہ وہ جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کی پہچان کر سکیں، میڈیا کی ساکھ کو مضبوط کرے گا۔ اس مقصد کے لیے میڈیا لٹریسی مہمات اور ورکشاپس کا انعقاد ضروری ہے۔
پاکستان میں صحافت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ مالی دباؤ، حکومتی مداخلت، اور صحافیوں کے تحفظ کی کمی نے آزاد صحافت کے خواب کو مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم اگر تربیت، آزاد فنڈنگ، تحقیقی معاونت اور قانونی تحفظ کو یقینی بنایا جائے تو پاکستانی صحافت نہ صرف مستحکم ہو سکتی ہے بلکہ عوامی شعور بیدار کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے۔
پاکستانی صحافت اس وقت ایک ایسے مرحلے پر ہے جہاں پرانے انداز اور نئی ٹیکنالوجی کے درمیان خلیج موجود ہے۔ اگر صحافت صرف سیاسی تنازعات اور سطحی خبروں تک محدود رہی تو یہ نہ عوام کو جدید تحقیق تک رسائی دے پائے گی اور نہ ہی ملک کے علمی شعور کو بڑھا سکے گی۔ مستقبل کی ضرورت یہی ہے کہ پاکستانی میڈیا تحقیق، ٹیکنالوجی اور عوامی شعور کو یکجا کرتے ہوئے ایک ایسا ماڈل اپنائے جو نہ صرف معلومات فراہم کرے بلکہ علم و فہم کو عام کرے۔
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔