شگفتہ بھٹی
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد ایمان، حیا اور خاندانی نظام پر ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کل ایسے پروگرام اور ریئلٹی شوز لانچ کیے جا رہے ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اور بے حیائی کی طرف دھکیلنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان میں سب سے تازہ مثال پاکستان میںنیا آنے والا ریئلٹی شو ہے، جو اپنے مواد اور فارمیٹ کی وجہ سے ہمارے مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی اصولوں سے براہِ راست متصادم ہے۔یہ شو مغربی طرز کے ڈیٹنگ پروگراموں سے متاثر ہے، جہاں غیر محرم لڑکے لڑکیاں ایک ولا میں رہتے ہیں، کیمروں کے سامنے تعلقات بناتے اور بگارتے ہیں۔اسے "محبت کی تلاش” کا نام دیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ فحاشی اور عریانی کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
پاکستانی کلچر میں جہاں خاندان، عزت اور حیا بنیادی اقدار ہیں، وہاں ایسا شو براہِ راست ان بنیادوں پر وار ہے۔اور خاصا کاری وار ہے ۔ اس کاری وار سے پہلے دراصل کئی وار پہلے سے ہماری دینی حمیت اور غیرت پر کئے جاچکے ہیں جن پر ہماری آوازیں ہمارے گلوں میں گھٹی رہیں اور ہماری غیرت اور ہمارے ضمیر تو ویسے سوتے ہی رہے ہیں ورنہ اس سے پہلے جس طرح کے پروگرام اور شوز کو ہمارے نجی ٹی وی چینلز دکھا چکے ہیں وہ ہمارے گھروں کی چار دیواری پر نقب اور چادر کی حرمت کو کافی پامال کر چکے ہیں ۔
مثال کے طور پر۔۔۔
ٹی وی کے گیم شوز اور ٹک ٹاک شوز نے بھی اپنا خاصا حصہ ڈالا ہے ۔ جنھوں نے ناظرین کو چند لمحوں کے انعامات کے لالچ میں گمراہ کیا۔ ان پروگراموں میں عورتوں، بچوں اور خاندانوں کو سٹیج پر لا کر شور شرابہ، بے تکلف گفتگو اور حد سے بڑھی ہوئی نمائش دکھائی گئی۔ اور ٹک ٹاکرز کو اتنا پرموٹ کیا کہ آج سوشل میڈیا پر یہ سب خرافات دولت کمانے کے آسان ذرائع بن گئے ۔ اس کے منفی اثرات یہ ہوئے کہ ناظرین میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ عزت، محنت اور تعلیم کی بجائے کامیابی کے لیے شور، ڈرامہ اور نمود و نمائش اور اپنی اور اپنے گھر اور گھر والوں کی زندگی کا ہر پہلو دکھا کر شہرت اور دولت دونوں آسانی سے کمائی جاسکتی ہیں پھر یہی ٹک ٹاک کلچر سوشل میڈیا کی سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ بن گیا اور ہمارے بچے جوان بوڑھے مائیں بہنیں بیٹیاں سب یہاں پر آگئیں اور انھوں نے تفریح کے نام پر اسے اپنا پروفیشن بناکر اپنے گھر، اپنی عزت اور حتی کہ مذہب تک کو مذاق بنا کر ویڈیوز کی مارکیٹ میں بیچنا شروع کردیا ۔
اس کلچرنے ہماری روایتی اقدار کو نہ صرف کھوکھلا کردیا بلکہ والدین اور بچوں کے درمیان شرم و حیا کی دیوار بھی گرانی شروع کردی ۔۔ جب میڈیا ماسٹر مائنڈ لبرلز نے دیکھا کہ یہ معاشرہ تو خاموشی سے سب نگل رہا ہے تو ہمارے دل و دماغ کو سلانے اور ہماری نسل میں مزید بے راہ روی کے جراثیم کو پروان چڑھانے کے لئے انھوں نے ایک اور شو کا فارمیٹ مغرب سے لیا جسے ایک نجی ٹی وی چینل نے بڑا سا گھر بناکر اس میں بہت سارے نامحرم مرد وخواتین کو مہینے بھر کے لئے وہاں شتر بے مہار چھوڑ کر ایک تماشہ کروادیا جس میں شرم و حیا کی دیواریں پھلانگ کر اک دوسرے کی عزت کا لحاظ رکھے بغیر لڑائی جھگڑے کئے جاتے ہیں اور جو جتنا بد تمیز بد لحاظ ہوتا ہے وہ زیادہ مشہور اور کامیاب ٹہرتا ہے اور یہ تماشہ اب اپنے چوتھے سیزن میں کامیابی سے چل رہا ہے جسے دیکھنے کے اب گھر کے سبھی افراد عادی ہوگئے ہیں.
لہذا اب وقت تھا وہ میڈیا ماسٹر مائنڈ اپنے بھرپور مکروہ ایجنڈے کے ساتھ ہماری کمزور چار دیواری کو ایک دھکا اور دیکے ہمارے دین اخلاق اور حیا کو زمین بوس کردے ۔۔ تو بس !!! انھوں نے موقع پاکر چوکا بلکہ چھکا ماردیا اور نئے شو جیسے فتنے کو پھیلانے کی بھرپور تیاری کرلی ۔۔ جسکی میزبان ہماری ایک معروف اداکارہ ہیں اور اس شو کے ٹیزر جو آن ائیر ہوچکے ہیں وہ اسکے بھرپور نقشہ کھینچ چکے ہیں ۔۔
اب دکھایا جائے گا کہ ایک ہی گھر میں چار غیر شادی شدہ جوڑے اکٹھے کیسے کئے جائیں گے جن پر کیمرے ہر وقت آن ہوں گے، اور "ٹاسک” کے نام پر انہیں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے، کھیلنے، ہنسنے، اور رومانی انداز میں پیش ہونے کے کیسے کیسے مواقع دیے جائیں گے ناظرین کو یہ باور کرایا جائے گا کہ یہ سب "محبت کی آزمائش” ہے۔
لیکن حقیقت میں
یہ سب مناظر دراصل بے حیائی کی ترویج ہونگے۔ کیونکہ!!
ایسے "ٹاسک” نوجوان نسل کے ذہن میں یہ تاثر بٹھاتے ہیں کہ مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط اور ایک ہی چھت کے نیچے رہنا معمول کی بات ہے۔
آہستہ آہستہ ناظرین کے اندر سے حیا اور نکاح کی ضرورت ختم کر دی جاتی ہے۔
"جوڑے” ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑتے ہیں، صلح کرتے ہیں، رومانی انداز میں باتیں کرتے ہیں اور یہ سب کیمرے کی آنکھ اور ناظرین کی توجہ کے سامنے۔
یہ سب کچھ دراصل ایک نفسیاتی پروپیگنڈا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کے بچے اور نوجوان یہ سمجھیں کہ:
"محبت” نکاح سے زیادہ اہم ہے۔
لڑکا لڑکی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں چاہے ان کا رشتہ کچھ بھی نہ ہو۔
رشتوں کی حرمت، والدین کی عزت اور مذہبی حدود سب دقیانوسی باتیں ہیں۔
یہی وہ خطرناک سوچ ہے جو ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت کو ٹکڑے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیگی ۔۔ لہذا !!!
اگر آج ہم نے ایسے شوز کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو آنے والے کل میں ہمارا معاشرہ وہی کچھ بن جائے گا جو مغرب میں ہو رہا ہے، جہاں خاندان ٹوٹ چکے ہیں، ماں باپ کی عزت ختم ہو چکی ہے، اور اولاد نکاح کے بغیر پیدا ہونا عام بات سمجھی جاتی ہے۔ یہی سب
عشق لازوال شو ہماری موجودہ نوجوان نسل بلکہ بعد آنے والی کئی نسلوں کو یہی سب سکھانے کا ذریعہ بنے گا خدارا سمجھئیے!!!
یہ ہماری نسلوں کے اخلاق و کردار کی بربادی کا ایجنڈا ہے ۔۔ اس شو کا فارمیٹ سمجھئے یہ اتنا کول نہیں ہے جتنا بتایا جائے گا یہ صرف ایک پروگرام نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سازش ہے جس کا مقصد ہماری اسلامی اقدار، ہماری تہذیب اور نئی نسل کے اخلاق کو جڑ سے کاٹ دینا ہے۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق ایسے شوز دیکھنے والے نوجوان رفتہ رفتہ حیا سے محروم اور جذباتی طور پر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ یہ شوز نہ صرف جنسی جذبات کو ابھارتے ہیں بلکہ کردار سازی کی بجائے کردار کشی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لہذا ایسے مواد معاشرتی زہر ہوا کرتے ہیں یہ لازوال عشق دراصل وہ آتش ہے جو ہمارے رشتوں ہمارے گھروں اور پوری قوم کو جلا کر رکھ دے گی۔
اب ہمارے علما اور ریاستی اداروں کی بھی اولین زمہ داری اور فرض ہونا چاہئیے کہ منبر و محراب سے اپنی قومی ایوانوں سے ایسی یلغار کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ لمح فکریہ ہے۔اب تو لازم ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے، خصوصا پیمرا اور وزارتِ اطلاعات بھی اٹھ کھڑے ہوں اور اس شو پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے بھی قانون سازی کریں تاکہ کوئی بھی ادارہ بے حیائی کو فروغ نہ دے سکے۔
کیا ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ جب مغربی میڈیا میں ہم جنس پرستی اور بے حیائی کو عام کیا گیا تو چند سال بعد یہ معاشرتی "حق” بنا کر پیش کی گئی؟ اگر آج ہم نے عشق لازوال جیسے پروپیگنڈے کو نہ روکا تو کل خدا نخواستہ ہمارے گھروں میں نکاح، ماں باپ کا احترام اور رشتوں کی حرمت ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔
نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے. ��