اسلام آباد: پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بجٹ تجاویز سے متعلق پالیسی سطح کے مذاکرات کل سے شروع ہوں گے جو 23 مئی تک جاری رہیں گے۔ تاہم نئے مالی سال کا بجٹ 2 جون کو پیش ہونےکاامکان ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی مذاکرات گزشتہ ہفتے مکمل ہوگئے تھے، لیکن پالیسی سطح کے مذاکرات 23 مئی تک جاری رہیں گے، اس کے بعد نئے مالی سال کا بجٹ 2 جون کو پیش کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کیلئے مختلف تجاویز آئی ایم ایف سے شیئر کی جائیں گی، آئی ایم ایف کسی بھی ریلیف کی صورت میں متبادل ریونیو پر زور دے چکا ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان کی بیرونی مالی ضروریات سے متعلق رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی قرض ادائیگی کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے مگر خطرات بدستور موجود ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان مزید کشیدگی سے معاشی اصلاحات متاثر ہوسکتی ہیں، پالیسیوں میں نرمی موجودہ معاشی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، پاکستان میں سیاسی دباؤ اور سبسڈی سے مالی اصلاحات متاثر ہوسکتی ہیں۔
آئی ایم ایف نے اگلے بجٹ میں تجارتی آزاد کاری کے لیے نئے ساختی معیار عائد کیے ہیں، جن میں پانچ سال سے کم پرانی استعمال شدہ موٹر گاڑیوں کی تجارتی درآمد پر تمام مقداری پابندیاں ختم کرنا اور فی لیٹر 5 روپے کاربن لیوی نافذ کرنا شامل ہے۔
ساختی معیار پر دسمبر 2025ء تک عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے، آئی ایم ایف نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ وہ ایک منصوبہ تیار کرے جو کیے گئے تجزیے کی بنیاد پر ہو، تاکہ 2035ء تک سپیشل ٹیکنالوجی زونز اور دیگر صنعتی پارکس و زونز سے متعلق تمام مراعات کو مکمل طور پر مرحلہ وار ختم کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف نے زرعی آمدنی ٹیکس سے متعلق نافذ شدہ قوانین پر عملدرآمد کو لازمی قرار دے دیا ہے، جس کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرنا ہوگا۔ اس منصوبے میں ٹیکس گوشواروں کی پروسیسنگ کے لیے ایک فعال نظام قائم کرنا، ٹیکس دہندگان کی شناخت اور رجسٹریشن، آگاہی مہم چلانا، اور عملدرآمد میں بہتری کا منصوبہ شامل ہوگا۔
اس کے علاوہ، آئی ایم ایف نے کیپٹو پاور لیوی آرڈیننس کو مستقل قانون بنانے کے لیے قانون سازی، اور یکم جولائی 2025ء سے بجلی کے سالانہ ٹیرف ری بیسنگ اور گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی نوٹیفکیشنز جاری کرنا بھی لازمی قرار دیا ہے۔
ہفتے کے روز واشنگٹن ڈی سی سے جاری کردہ عملے کی رپورٹ میں، جو توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پہلے جائزے کی تکمیل اور دوسری قسط کے اجراء اور حال ہی میں طے پانے والی ریسیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی سہولت کے تحت جاری کی گئی، آئی ایم ایف کی شرط تھی کہ پاکستان مالی سال 2025-26ء کا بجٹ آئی ایم ایف کے عملے کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے مطابق پارلیمنٹ سے منظور کرائے تاکہ پروگرام کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اگلے 5 سال میں 115 ارب ڈالر سے زائد بیرونی فنڈز درکار ہوں گے۔
آئی ایم ایف کی پاکستان کی بیرونی مالی ضروریات سے متعلق جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قرض ادائیگی کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے مگر خطرات بدستور موجود ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مزید کشیدگی سے معاشی اصلاحات متاثر ہوسکتی ہیں، پالیسیوں میں نرمی موجودہ معاشی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، پاکستان میں سیاسی دباؤ اور سبسڈی سے مالی اصلاحات متاثر ہو سکتی ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو صرف آئندہ مالی سال میں 19.3 ارب ڈالر کی بیرونی مالی ضرورت ہے جبکہ 2026،27 میں 19 ارب 75 کروڑ کی ضرورت ہوگی۔ 2027،28 میں 31 ارب 35 کروڑ ڈالر کے بیرونی فنڈز درکار ہوں گے، پاکستان کو29-2028 میں 23 ارب 13 کروڑ کی فنڈنگ چاہیے ہوگی، 2030 تک مزید 22 ارب 16 کروڑ ڈالر کی مالی ضروریات کا سامنا ہوگا۔
اگلے مالی سال نئے قرض اور دوست ممالک کے رول اورز کی مد میں 17 ارب ڈالر دستیاب ہوں گے، اس کے باوجود 2 ارب 40 کروڑ ڈالر کا مالی گیپ پورا کرنا ہوگا۔ نئے امریکی ٹیرف سے پاکستان کی برآمدات اور جی ڈی پی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے سالانہ 80 کروڑ ڈالر تیل کی سہولت دستیاب ہوگی، اگلے سال پانڈا بانڈ کے اجراء سے چینی مارکیٹ سے 40 کروڑ ڈالر ملنے کا امکان ہے، اگلے سال کلائمیٹ فنانسنگ کی مد میں 41 کروڑ ڈالر ملیں گے۔
آئی ایم ایف کے مطابق اگلے سال پاکستان کی کمرشل قرضوں تک رسائی محدود رہے گی، ریٹنگ بہتر ہونے پر2027 میں یورو بانڈ سمیت سرمائےکی عالمی منڈیوں تک رسائی مل سکتی ہے، اگلے مالی سال صرف ساڑھے آٹھ کروڑ ڈالر کا نیا کمرشل قرض ملنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ورلڈ بینک کی جانب سے آئندہ سال کوئی بجٹ سپورٹ نہیں ملے گی تاہم ایشیائی ترقیاتی بینک سے 25 کروڑ ڈالر ملنے کا امکان ہے۔
اگلے سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کیلئے 1.5 ارب ڈالر درکار ہوں گے، رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوکر 22 کروڑ 90 لاکھ ڈالر رہنے کا امکان ہے، اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا اصل تخمینہ 3 ارب 60 کروڑ ڈالر تھا، زرمبادلہ ذخائر میں بتدریج بہتری کی امید ہے۔