زاہدمقصود احمد قریشی
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی نوعیت کے اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ (smda)پر دستخط کے بعد دونوں برادر اسلامی ملکوں میں جہاں فطری طور پر جشن کا ماحول دیکھنے میں آرہا ہے وہیں پر اس معاہدے سے پورے عالم اسلام میں بھی خوشی محسوس کی جارہی ہے۔یہ تاریخی معاہدہ جہاں پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے وہیں پر دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط ہوتے روابط اور بڑھتے ہوئے اعتماد کا اظہار بھی کرتا ہے یہ معاہدہ جہاں دفاعی تعاون کو وسعت دے گا وہیں خطے میں امن واستحکام کے لیے بھی اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
اس تاریخی معاہدے سے جہاں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قابل فخر پاکستانی عوام ایک دوسرے کو اپنے رب کریم کے پیارے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے در کی چوکیداری ملنے پر مبارکبادیں دے رہے ہیں، اسلام آباد، کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں کو پاکستانی سعودی جھنڈوں سے سجا رہے ہیں، وہیں پر عالم عرب میں بھی خوشیاں منائی جارہی ہیں ۔سعودی عرب کا نیا ترانہ یاارض الحرم۔یافخرالزمان۔اس وقت پوری دنیا میں ٹاپ ٹرینڈ پر جارہا ہے. ارض الحرم یعنی سعودیہ اور فخرالزمان یعنی پاکستان اس وقت اپنے اور پرایوں میں زیر بحث ہے۔
مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب اور ایٹمی طاقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان ریاض میں ہونے والے تاریخی اور جامع دفاعی معاہدہ پاک سعودی سٹریٹجک دفاعی معاہدہ (smda)پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے دستخط کیے. اس موقع پر مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ سعودی عرب اور پاکستان میں 8دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری ہے. دونوں ممالک میں مشترکہ سٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں یہ دفاعی معاہدہ ہوا معاہدہ دونوں ممالک کی سلامتی کو بڑھانے کے مشترکہ عزم کی نشاندہی کرتا ہے.دونوں برادر ممالک کے درمیان سٹریٹجک شراکت داری کی گہرائی اور دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا، موجودہ اور متوقع خطرات سے نمٹا جائے گا اور دفاعی تعاون کے مختلف پہلوؤں کوفروغ دیا جائے گا۔
اس تاریخی معاہدے کے بعد پاکستان اب حرمین الشریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا ہے، معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا، دونوں ممالک کسی بھی خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹیں گے اور اپنے دفاع کے لیے ایک ملک کی طاقت دوسرے ملک کے دفاع کے لیے موجود ہوگی پاکستان مقدس مقامات کے دفاع کے لیے سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگااور دونوں ممالک بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دیں گے.
یہ معاہدہ جہاں دونوں ممالک کی اپنی اپنی سلامتی بڑھانے اور خطے اور دنیا بھر میں امن اور سلامتی کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، وہیں پر اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع اور تحفظ کو مضبوط بنانا ہے. اب تک دفاعی اور سٹریٹجک معاہدوں میں پاکستان حرمین کے دفاع اور سعودی سیکورٹی کے لیے دستے فراہم کرنے کا پابند تھا اب اس نئے تاریخی معاہدے کی اہم بات یہ ہے کہ اسمیں کہا گیا ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جاے گا۔اس معاہدے سے پاکستان کا کردار مشرق وسطی میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے پاکستان پر ایک بڑی ذمہ داری آگئی ہے کیونکہ مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ کی سیکورٹی پاکستان کو ملنا جہاں پاکستانیوں کے لیے باعث اعزاز ہے، وہیں دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا اس معاہدے سے جہاں سعودی عرب کو کسی بھی بیرونی حملے کی صورت میں ایک مضبوط ایٹمی چھتری کاتحفظ ملے گا وہیں پراس معاہدے سے پاکستان کی اکانومی بھی بہتر ہوجائے گی۔
اس معاہدہ سے قبل دوحہ کانفرنس میں پاکستانی وزیراعظم کے مضبوط اور جرآت مندانہ موقف کو بھی بہت سراہا گیا، پہلے ہی بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے تعلقات بن جانے کے بعد پاکستان علاقے میں ایک جاندار کردار کے طور پر مانا جارہا ہے، ویسے اس معاہدے کااثر پاک بھارت تناؤ پر توپڑتا دکھائی نہیں دیتا البتہ چین، ترکی اور سعودی عرب واضح طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں اور پاکستان اب ایران اور سعودی عرب کے ساتھ بیک وقت اچھے تعلقات قائم کرنے کی پوزیشن میں بھی آگیا ہے.اس معاہدے سے لگتا ہے مشرق وسطی کسی طرح نیااتحاد بنانے کی سوچ رہا ہے کیونکہ مشرق وسطی میں اب ایک ایسا نیا پلئیر یعنی پاکستان بھی داخل ہو گیا ہے جو اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا. جس سے اسرائیل کے لیے صورتحال انتہائی پیچیدہ ہوتی نظر آرہی ہے.
پاکستان کا جدید ابابیل میزائل سعودی عرب اور اس کی دو مقدس مساجد حرمین الشریفین کی حفاظت کے لیے تعینات کیا جائے گا. ابابیل میزائل سسٹم دفاع کے لیے نہیں بلکہ حملے کے لیے ہے اور یہ ایک میزائل کئی میزائلوں پر مشتمل ہے اس معاہدے میں غالب امکان ہے کہ جلد ہی قطر متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک بھی شامل ہو جائیں.سعودی عرب کا خلیج تعاون کونسل کے ساتھ پہلے ہی ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ ہے پاکستان کو شامل کرنے سے سات ممالک بنتے ہیں ہوسکتا ہے جلد ہی اس میں اور وسعت آجائے اور ایک مضبوط اسلامی سٹریٹجک اتحاد کی جانب قدم بن جائے.
اس معاہدے کی شق کے مطابق کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور ہوگا اس کے نتیجے میں اب شایدحملے اور جنگ وغیرہ کا کسی کو خواب اور خیال کم ہی آئے گا. مجموعی طور پر یہ معاہدہ خلیج کے سیکورٹی نقشہ کو از سرنو ترتیب دیتاہے، سعودی تیل کی تنصیبات کی حفاظت کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی پاکستانی افواج کی خطے میں وسیع تر تعیناتی ڈرون اور گولہ بارود کی مشترکہ پیداوار اور بحیرہ عرب اور بحیرہ احمر میں مشترکہ بحری گشت یہ سب کچھ ملا کر ایک نیا دفاعی بلاک تشکیل پاتا نظر آرہا ہے اس معاہدے سے پاکستان کا کردار خطے میں ایک مضبوط عسکری طاقت کی حثیت سے مستحکم ہوا ہے جو اپنے اس تازہ تعارف کے بعد بین الاقوامی کھلاڑی کی حیثیت سے اپنا کردار مستحکم کرسکے گا.
اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کو ممکنہ طور پر اقتصادی فوائد بھی مل سکتے ہیں اور کسی بھی اقتصادی پیش رفت کے بعد حکومت پاکستان اگراپنی عوام کو اقتصادی دباؤ سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور تیل بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کے ضمن میں کوی بڑا ریلیف دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ملک پاکستان میں داخلی استحکام بھی حاصل ہو جائے گا.الغرض اس معاہدے کے ذریعے تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی ہے جس میں پاکستان ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہاہے اور یہ پیش رفت انشاءاللہ ملک عزیز پاکستان میں داخلی، سیاسی اور اقتصادی استحکام کا بھی ذریعہ بنے گی، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی قسمت کا ستارہ عروج کی طرف جاتا نظر آرہا ہے۔
رکن مجلس عمومی جمعیتہ علماء اسلام پنجاب ہیں، اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔