ملتان:پاکستان میں تیزی سے کپاس کی گرتی ہوئی پیداوار اور زیر کاشت رقبہ میں کمی کے باعث کاٹن صنعت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کے خاتمے اور کپاس کی بحالی و فروغ کے لیے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) اور کاٹن کونیکٹ (CottonConnect)کے باہمی اشتراک سے پہلی بحالی کپاس قومی کانفرنس کا ملتان کے نجی ہوٹل میں انعقاد ہوا۔ کانفرس کا مقصد کپاس کو درپیش مختلف چیلنجز اور ان کے مؤثر حل کے لیے مختلف حکمت عملیوں کے مربوط استعمال سے ایک پائیدار اور مستقل روڈ میپ کے ذریعے کاٹن ویلیو چین کو ازسرنو تشکیل دینا تھا۔کانفرنس میں حکومتی نمائندوں،اعلیٰ افسران،زرعی ماہرین، صنعتی رہنماؤں، تحقیقی اداروں اور کسان تنظیموں سمیت اہم سٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔ماہرین نے متفقہ طور پر پاکستان کی معیشت میں کپاس کے کلیدی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی گرتی ہوئی پیداوار پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور جامع پالیسی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا، جن میں زیادہ پیداوار دینے والی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھلنے والی بیجوں کی اقسام کی ترقی،مؤثر آبپاشی نظام اور کسانوں کے لیے معاونتی سہولتوں میں بہتری شامل ہیں.ماہرین نے کاٹن ویلیو چین کی ترقی اور اس کے تمام مراحل میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کی پیداوار سے لے کر اس کی پروسیسنگ، تجارت اور برآمدات تک کے عمل کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پورے ویلیو چین میں اصلاحات ضروری ہیں۔
کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی رانا قاسم نون نے کہا کے کپاس کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا بہت ضروری ہے ۔کپاس کی بحالی کے لیے ریسرچ اداروں کو مالی وسائل فراہم کئے جائیں اور پی سی سی سی کا پی اے آر سی میں انضمام بہت ضروری ہے۔
ممبر صوبائی اسمبلی رانا اقبال سراج نے کپاس کی بحالی کو ایک خوش آئند اقدام قرار دیا۔انہوں نے ملکی معیشت کے لئے کپاس کی ترقی و ترویج کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔انہوں نے کاٹن بیلٹ میں گنے اور چاول کی کاشت پر پابندی عائد کرنے کو ضروری قرار دیا۔ریسرچ اداروں کو مالی وسائل کی فراہمی سے ہی کپاس کی بحالی ممکن ہے۔
وفاقی سیکرٹری برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ،وسیم اجمل چوہدری نے بحالی کپاس قومی کانفرنس کے اختتام پر کہا کہ کپاس پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے کلیدی اہمیت رکھتی ہے اور اس کی پیداوار میں کمی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔انہوں نے کانفرنس میں شریک ماہرین اور اداروں کی مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیا اور یقین دلایا کہ نیشنل فوڈ سیکیورٹی وزارت کپاس کے شعبے کی بحالی کے لیے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاکہ اس صنعت کو عالمی سطح پر مستحکم اور مسابقتی بنایا جا سکے.
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انٹرنیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی (ICAC) کے ایڈوائزر ڈاکٹر ایرک نے بتایا کہ ICAC عالمی سطح پر کپاس کے شعبے کی ترقی، پیداوار کے چیلنجز، اور تجارتی پالیسیوں پر کام کر رہی ہے ۔پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی،موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ICAC کا کردار نہایت اہم ہے۔کمیٹی عالمی تعاون اور جدید تکنیکی معاونت کے ذریعے پاکستان کو کپاس کے بحران پر قابو پانے میں مدد فراہم کرے گی، جس میں بیجوں کی بہتری،جدید زرعی طریقوں کی ترقی اور ماہرین کی رہنمائی شامل ہے۔ ICAC کی بھرپور معاونت پاکستان کی کپاس کی صنعت کی بحالی کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو گی۔
ڈائریکٹر جنرل گرین پاکستان انیشیٹو میجر جنرل (ر)شاہد نذیر نے کاٹن بحالی قومی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی زرعی صنعت کی ترقی کے لیے بنجر زمینوں کی بحالی،جدید زرعی مشینری کی فراہمی،ایگری مالز کے قیام اور کپاس کے لیے سپورٹ پرائس کے اعلان جیسے اہم اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی زرعی اصلاحات اور پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی تنظیم نو کے ذریعے کپاس کی صنعت کو نئی زندگی دی جا سکتی ہے،جس سے ملک کی اقتصادی ترقی اور کسانوں کی بہبود میں اضافہ ہوگا۔
میجر جنرل محمد ایوب احسن بھٹی،ڈائریکٹر جنرل،لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم (LIMS) نے کاٹن کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کپاس کی صنعت کی بحالی کے لیے زرعی زمین کی مؤثر تزئین اور انتظام کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی کا ایک بڑا سبب زمین کا ناقص انتظام اور وسائل کا غیر مؤثر استعمال ہے۔لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم (LIMS) کے ذریعے زمین کی معلومات کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے درست اور شفاف بنایا جا رہا ہے،جس سے نہ صرف زمین کی ملکیت اور استعمال کے ریکارڈ میں بہتری آئی ہے بلکہ کسانوں کو زمین کے مؤثر استعمال اور بہتر پیداوار کے مواقع بھی مل رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ LIMS کا استعمال کپاس کی پیداوارکو بہتر بنانے کے لیے اہم ہے،کیونکہ اس سے کسانوں کو زمین کی بہتر منصوبہ بندی اور پانی کے وسائل کے مؤثر انتظام میں مدد ملے گی۔ ان کے مطابق،زمین کی تزئین کی مؤثر حکمت عملی پاکستان کی کپاس کی صنعت کی بحالی میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے،اور اس کے ذریعے ہم نہ صرف کپاس کی پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ زرعی شعبے کی پائیدار ترقی کو بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔
ایلیسن وارڈچیف ایگزیکٹو آفیسر، کاٹن کنیکٹ نے اپنے ورچوئل خطاب میں کہا کہ کاٹن کنیکٹ پائیدار کپاس کی پیداوار کے فروغ میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے،جس کا مقصد کسانوں کو جدید زرعی مہارتوں،پانی اور مٹی کے مؤثر انتظام، کم کیمیکل استعمال،اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ زراعت کے طریقے سکھانا ہے۔پاکستان جیسے بڑے پیداواری ملک میں،جہاں کپاس ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،پائیداری ناگزیر ہو چکی ہے۔کاٹن کنیکٹ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر چھوٹے کسانوں کی تربیت،پانی کے مؤثر استعمال،نامیاتی کاشتکاری کے فروغ،ور خواتین کسانوں کی شمولیت پر توجہ دے رہا ہے تاکہ کپاس کی صنعت کو زیادہ پائیدار اور منافع بخش بنایا جا سکے۔
نائب صدر پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی،ڈاکٹر یوسف ظفرنے بحالی کپاس کانفرنس کے آغاز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کپاس کی صنعت ملکی معیشت میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی کمی اور دیگر چیلنجز کے باوجود کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے نئی تکنیکی جدتیں اور تحقیق ضروری ہیں۔ڈاکٹر یوسف ظفر نے بتایا کہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کا مقصد کپاس کی صنعت کی ترقی کے لیے حکومتی اور نجی شعبے کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک جامع حکمت عملی کے تحت ہی کپاس کے بحران سے نکلنا ممکن ہے،اور اس کانفرنس کا مقصد تمام شراکت داروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے تاکہ کپاس کی صنعت کو ایک نئی سمت دی جا سکے۔قومی کپاس بحالی کانفرنس میں مختلف ماہرین نے کپاس کی صنعت کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی،جن میں ڈاکٹر خالد حمید ( تارا گروپ)،ڈاکٹر انجم علی بٹر ( کاٹن کنسلٹنٹ، پنجاب)،عارف حمید مخدوم (CottonConnect)،ڈاکٹر فرخ حسن (MBT)،نصیر خان (فاطمہ فرٹیلائزرز)،ڈاکٹر اقبال بندیشہ (ایویول گروپ)،خالد کھوکھر (صدر پاکستان کسان اتحاد)اور ڈاکٹر بابر باجوا (CABI) شامل تھے۔اسی طرح قومی کانفرنس برائے بحالیٔ کپاس میں شریک دیگر مقررین نے کپاس کی صنعت، تجارت، پائیداری، اور نئی اختراعات پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹر جسو مل ٹی. لیمانی،چیئرمین پی سی جی اے نے جیننگ انڈسٹری کے چیلنجز اور حل پر گفتگو کی،جبکہ کنور عثمان،ڈائریکٹر ٹیکسٹائل آئی سی اے سی نے ٹیکسٹائل اور تجارت کے عالمی تناظر پر بات کی۔ مدثر رضا صدیقی،ڈائریکٹر جنرل ٹیکسٹائل وزارت تجارت نے "فارم ٹو فیشن”کے تحت اقتصادی ترقی اور پائیداری کے مستقبل پر اظہار خیال کیا۔ڈاکٹر یوسف علی (سورتی گروپ ) نے پائیدار کپاس کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔پروفیسر ڈاکٹر آصف علی،چیئرمین این ایس ڈی آر اے نے بیج کے شعبے میں نئی اختراعات کا ذکر کیا۔کانفرنس کے اختتامی سیشن میں ابوبکر،کاٹن کنیکٹ اور ڈاکٹر یوسف ظفر،نائب صدر پی سی سی سی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا.
قومی کاٹن کانفرنس کا اختتام اس عزم کے ساتھ ہوا کہ پاکستان کی کپاس کی صنعت کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔اس کانفرنس میں ماہرین نے کپاس کی پیداوار میں اضافے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور جدید تحقیق و تکنیک کے استعمال کی اہمیت پر زور دیا۔شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کپاس کی صنعت کی بحالی کے لیے حکومتی، نجی اور کسانوں کے درمیان مضبوط شراکت داری کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی معیشت میں اس کے اہم کردار کو دوبارہ مستحکم کیا جا سکے۔مزید برآں پی سی سی سی کے تحت ایک نیا پلیٹ فارم بنایا جائے گا جو کپاس کی پائیدار پیداوار پر کام کرے گا جس کو کاٹن کنیکٹ کا تعاون حاصل ہوگا۔اس میں پرائمارک،بی سی آئی،او سی اے،فیئر ٹریڈ،پی سی جی اے،اے پی ٹی ایم اے،کاشتکار،سرکاری محکمے اور دیگر ادارے شامل ہوں گے.