سید خالد جاوید بخاری
برطانوی نوآبادیاتی دور میں شہری انتظام کے قیام کے لیے میونسپل اداروں کا قیام ایک بنیادی حکمتِ عملی تھا۔ ملتان میونسپل کمیٹی کا پہلا بجٹ (1867–68) پنجاب میونسپل ایکٹ 1867 کے نفاذ کے فوراً بعد مرتب ہوا، جس نے ملتان میں جدید شہری نظم و نسق، مالی خود انحصاری اور مقامی ٹیکسیشن کے ڈھانچے کی بنیاد رکھی.1849ء میں ملتان کی برطانوی فتح کے بعد شہری نظم و نسق براہِ راست ڈپٹی کمشنر کے تحت رہا۔ 1857ء کی بغاوت کے بعد برطانوی حکومت نے شہری علاقوں میں مقامی ادارہ جاتی کنٹرول کو مضبوط کرنے کے لیے میونسپل نظام کو فروغ دیا۔
پنجاب میونسپل ایکٹ 1867 کے تحت ملتان میونسپل کمیٹی کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد شہری صفائی، سڑکوں اور بازاروں کی مرمت،صحتِ عامہ، پانی کی فراہمی، مقامی ٹیکسیشن جیسے امور کو باقاعدہ مالی اور انتظامی فریم ورک میں لانا تھا۔
ملتان میونسپل کمیٹی کا پہلا بجٹ مالی سال 1867–68 کے لیے تیار کیا گیا۔یہ بجٹ ڈپٹی کمشنر ملتان مسٹر F. W. Wace کی نگرانی اور عملی سرپرستی میں بطور Chairman / Presiding Officer مرتب اور پیش کیا گیا۔ نوآبادیاتی روایت کے مطابق بجٹ مقامی نمائندہ ادارے سے زیادہ ضلعی انتظامیہ کی دستاویز تھا، اسے پنجاب حکومت کی منظوری حاصل تھی اور اس کا خلاصہ Punjab Government Gazette میں شائع ہوا. اس بجٹ کی مجموعی مالی ساخت میںکل حجم تقریباً 60 ہزار روپےتھا اور کل اخراجات تقریباً 58 ہزار روپے رکھے گئے اور اس طرح سرپلس کی مد میں تقریباً 2 ہزار روپے (ریزرو فنڈ) تھے.
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ اس مالی سال کے لئے کوئی صوبائی یا ضلعی قرض نہیں لیا گیا، بجٹ مکمل طور پر مقامی آمدنی پر مبنی تھا، جو نوآبادیاتی خود کفالت(Municipal Self-Sufficiency) کے نظریے کی عکاسی کرتا ہے۔آمدنی کے ذرائع (Municipal Receipts) میںچونگی / آکٹرائے (Octroi Duties) تھے، جو تجارتی شہر ہونے کے باعث سب سے بڑا ذریعہ تھے.اس طرح دکانوں اور بازاروں کا ٹیکس، جائیداد اور مکان ٹیکس، 4. لائسنس فیس (قصاب، کمہار، تاجر)، میونسپل جرمانے اور فیسیں تھیں، یہ تمام ذرائع شہری آبادی، تاجروں اور کاریگروں پر براہِ راست مالی بوجھ ڈالتے تھے۔
اخراجات کی بلاک وار تقسیم کے تناظر میںبجٹ اخراجات کی ترجیحات واضح طور پر نوآبادیاتی شہری تصور کی عکاسی کرتی ہیں، جس میں صفائی و نکاسی آب، نالیاں، کوڑا کرکٹ، صفائی عملہ، سڑکوں اور گلیوں کی مرمت، پانی کی فراہمی (کنویں، حوض)، صحتِ عامہ میں ویکسینیشن، وبائی امراض کی روک تھام، میونسپل عملہ اور انتظامی اخراجات شامل تھے. دلچسپ امر یہ ہے کہ تعلیم، رہائش یا مقامی فلاح پر خرچ نہ ہونے کے برابر تھا اور مقامی حکومت کی ترجیح صرف صحت، تجارت اور نظم و ضبط ہی رہی.
اس بجٹ پر ملتان کے عوام کا ردِعمل شدید رہا اور اس میںتاجروں کی جانب سے چونگی اور آکٹرائے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نرخوں میں اضافے کے خلاف تحریری درخواستیں بھی دی گئیں جبکہ بعض بازاروں میں غیر رسمی احتجاج بھی کیا گیا. اس طرح زمیندار اور جائیداد مالکان کی جانب سے مکان ٹیکس پر ناپسندیدگی کا اظہارتو کیا گیا لیکن سڑکوں اور صفائی کی بہتری کو تسلیم کیا. اس طرح عام شہریوںکی جانب سے صفائی، پانی اور بیماریوں میں کمی پر جزوی اطمینان کا ردعمل دیا گیا، مگر ٹیکسوں کو “سرکاری جبر” تصور کیا گیا.
نوآبادیاتی ریکارڈ کے مطابق دی گئی تحریر (Municipal taxation was unpopular, yet reluctantly accepted for the visible improvement of sanitation) یعنی یہ ردِعمل اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہمیونسپل ادارہ عوامی نمائندگی سے زیادہ کنٹرول کا آلہ تھا، فیصلے قراردادوں اور سرکاری اختیارات سے نافذ ہوتے تھے.
یہ پہلا بجٹ دراصل شہری وسائل پر ریاستی کنٹرول ہونے کے ساتھ مقامی معیشت سے ریونیو نچوڑنے اور شہری فضا کو نوآبادیاتی نظم میں ڈھالنےکی دستاویز تھا۔یہی بجٹ آگے چل کر ملتان کی جدید شہری توسیع ہوئی تو مستقل چونگی نظام کی بنیاد رکھی گی اور میونسپل بیوروکریسی کی بنیاد بنا۔
حوالہ جات و ریفرنسز:
1. Punjab Government Gazette, 1867–68 (Municipal Proceedings)
2. Multan District Gazetteer, 1901–02
3. District Multan (1849–1901), Punjab University Journal of History
4. Punjab Municipal Act, 1867
5. MMP Vol-1, Multan Development Authority
6. Municipal Administration Records, Punjab Archives, Lahore
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔



