اسلام آباد:وزارت توانائی نے کہا ہے کہ کاربن کا اخراج 43 فیصد ایندھن اور 31 فیصد کوئلے سے ہو رہا ہے،جس میں بڑا حصہ موٹر بائیک اور رکشہ کا ہے جو آلودگی کا سبب بنتا ہے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں حکام وزارت توانائی نے مزید بتایا کہ 2030ء تک 60 فیصد قابل تجدید توانائی کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے۔سینیٹر شیری رحمٰن کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا،
وزارت صنعت و پیداوار حکام نے الیکٹرک وہیکل پالیسی پر قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی پر وزیراعظم شہباز شریف نے اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے، جو کام کررہی ہے۔
اس موقع پر سیکریٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں الیکٹرک وہیکل کا آنا زیادہ ضروری ہے تاکہ کاربن کا اخراج کم ہوسکے، مزید کہنا تھا کہ سال 2030 تک ملک میں 30 فیصد الیکٹرک وہیکل کے لیے پُرعزم ہیں۔ توانائی بچا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بریفنگ دی کہ گرمیوں میں کولنگ کی وجہ سے بجلی کی ڈیمانڈ ڈبل ہوجاتی ہے، ہماری وزارت نے وزارت ہاوسنگ کو خط بھی لکھا ہے، ملک میں سولر انقلاب آگیا ہے، میں نے 2017 میں نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز کا آغاز کیا، سولرائزیشن کی حوصلہ شکنی کا کوئی پلان نہیں ہے۔
وفاقی وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ سولرائزیشن سے 18 ماہ میں سرمایہ کاری کا پیسہ پورا ہورہا ہے، نئی ریگولیشنز سے 4 سال میں سولر پر سرمایہ کاری کا پیسہ پورا ہوگا، ہر سولر والا 22 روپے فی یونٹ بجلی بیچ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم سولرائزیشن سے مہنگی بجلی خرید کر دیگر صارفین کو بیچ رہے ہیں،ٹرانسمیشن لاسز ضرور کم ہونے چاہیے،نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز کے بعد جن کے ساتھ معاہدے ہوچکے ان پر نظرثانی کی ضرورت نہیں ہے،نئی ریگولیشنز پر عمل نہ ہوا تو دیگر صارفین پر 103 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت بجلی خریدنے کے کاروبار سے نکل گئی ہے، حکومت این ٹی ڈی سی کو تین حصوں میں تقسیم کر رہی ہے،دسمبر میں 27 روپے فی یونٹ انڈسٹری کو دیا گیا ہے، اگلے تین سال تک اس پیکیج کے لیے آئی ایم ایف سے بات ہو رہی ہے،ہمارے پاس سستی بجلی پڑی ہے، انڈسٹری کو دیں گے۔