احمد عبداللہ
عہدہ,بی بی سی عربی، بیروت
سوشل میڈیا پر آئے روز مردوں میں ہونے والی ہارمونل تبدیلیاں اور اس کے باعث اُن کے مزاج میں آنے والے بدلاؤ پر بحث و مباحثے جاری رہتے ہیں۔
سائنسدانوں کے ایک گروہ کا ماننا ہے کہ ان ہارمونل تبدیلیوں کے باعث مردوں کے موڈ میں آنے والے بدلاؤ کا معاملہ خواتین میں ماہواری کے دوران موڈ میں آنے والی تبدیلیوں سے مختلف ہے۔ تاہم ہارمونل تبدیلیوں کے سبب مردوں کے مزاج میں تبدیلی کے امکانات کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
لیکن مردوں کی جسم میں آنے والی اِن ہارمونل تبدیلیوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
مردوں کے ہارمونل سائیکل کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے اور اس پر تنازع کیا ہے؟
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کی ویب سائٹ کے مطابق مردوں میں موجود سیکس ہارمون ’ٹیسٹوسٹیرون‘ اُن کے فوطوں (خصیوں) میں موجود ہوتا ہے لیکن اِس کی مقدار خواتین کی بیضہ دانی میں موجود ہارمونز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
ٹیسٹوسٹیرون مردوں کی جنسی نشونما میں بڑا کردار ادا کرتا ہے اور اسی کے سبب مردوں کے جسم پر بال بھی اُگتے ہیں، آواز میں بھاری پن آتا ہے اور جسمانی نشوونما بھی ہوتی ہے۔
اسی ہارمون کے سبب مرد میں جنسی خواہشات بھی برقرار رہتی ہیں اور سپرم کی پیدوار میں بھی اس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
مردوں کے جسم میں آنے والی ہارمونل تبدیلیوں کی کوئی ماہانہ سائیکل تو نہیں ہوتی لیکن سائنسی مطالعات تصدیق کرتے ہیں کہ مردوں میں ہارمونل سائیکل موجود ہوتی ہے اور اس میں تبدیلیاں ٹیسٹوسٹیرون لیول کے کم یا زیادہ ہونے سے آتی ہیں۔
مردوں کی اس کنڈیشن یا حالت کو ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کہا جاتا ہے اور اس اصطلاح پر تحقیق دہائیوں سے جاری ہے لیکن آج تک عالمی ادارہ صحت نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔
35 برس تک سائنسی تحقیق کرنے والے محقق جیڈ ڈائمنڈ نے 10 ہزار مردوں سے اس موضوع پر بات چیت کرنے کے بعد ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کی اصطلاح متعارف کروائی تھی جو کہ ایک ماہ کے دوران مردوں کے مزاج یا موڈ میں آنے والی تبدیلیوں کی وضاحت کرتی ہے۔
اس حوالے سے تحریر کردہ ان کی کتاب کے مطابق مردوں میں ہونے ہارمونل تبدیلیوں کے سبب اُن میں ڈپریشن اور پریشانی بڑھتی ہے اور اس وجہ سے انھیں سماجی اور خاندانی سطح پر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
سائنسی دنیا یہ تو تسلیم کرتی ہے کہ مرد کے جسم میں ہارمونل تبدیلیاں آتی ہیں لیکن ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کی اصطلاح پر کچھ سائنسدانوں میں اختلافات ہیں۔
کچھ محققین تو اِس بات پر بھی سوالات اُٹھاتے ہیں کہ آیا ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کسی طبّی پیچیدگی کا نام ہے بھی یا نہیں۔ اُن کی دلیل ہے کہ مردوں کے مزاج میں آنے والی تبدیلیاں ذہنی یا ماحولیاتی عوامل کے سبب بھی آ سکتی ہیں۔
دوسری جانب دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ ایک طبی کنڈیشن کا نام ہے جو ٹیسٹوسٹیرون کی کمی یا زیادتی کی صورت میں مردوں کے مزاج میں آنے والی تبدیلیوں کو واضح کرتی ہے۔
لیکن یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مردوں اور خواتین کی ہارمونل سائیکل میں فرق ہوتا ہے۔ خواتین کی ماہواری کی سائیکل ہر 28 دن بعد آتی ہے اور اس کا اُن کی تولیدی صحت میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ ماہواری کی پر سائیکل اُن کے حاملہ ہونے اور بچوں کو جنم دینے کی صلاحیت پر اثر ڈالتی ہے اور اسی سبب ان کی اندام نہانی میں جنین جمع ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس سائیکل کا ہر مہینے بلاتاخیر آنا عورت کی حاملہ ہونے کی صلاحیت سے جُڑا ہوا ہے۔
دوسری جانب مردوں کے جسم میں آنے والی ہارمونل تبدیلیاں یکسر ایک مختلف معاملہ ہے۔ مردوں کے ٹیسٹوسٹیرون لیول میں تبدیلیاں روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں، صبح اس کا لیول بڑھا ہوا ہوتا ہے اور شام کو اس میں کمی آ جاتی ہے۔
ٹیسٹوسٹیرون لیول کے گھٹنے یا بڑھنے سے اُن کی تولیدی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آسان الفاظ میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ خواتین کی ماہواری کی سائیکل کا اُن کی تولیدی صحت پر براہ راست اثر پڑتا ہے جبکہ مردوں میں ہارمونل تبدیلیاں اُن کی تولیدی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔
بشکریہ بی بی سی