WhatsApp Image 2025 01 16 at 10.56.17

لاس اینجلس: دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے!

علی احمد ڈھلوں

جب ہم یہ بات کہتے ہیں کہ دنیا فانی ہے،،، تو ہم قدرتی آفات پر بھی یقین رکھتے ہیں اور قیامت پر بھی۔ قیامت کا ایک دن مقرر ہے مگر قدرتی آفت کہیں بھی، کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بات ہر گز نہیں کہنی چاہیے کہ ”تیری آفت اللہ کا عذاب ہے اور میری آفت اللہ کا امتحان“۔ ان دنوں بحر الکاہل کنارے بسا ہوا خوبصورت، مالدار اور مشہور ترین شخصیات کا مسکن ، امریکی شہر لاس اینجلس جل رہا ہے اور کیلیفورنیا کی اہم اور بڑی ریاست آزمائش میں گھری ہوئی ہے۔ یہ شہرخوابوں کا دیس کہلاتا ہے، یہ رنگ و نور کا شہر ہے ،یہ امریکی فلم انڈسٹری کا مرکز تو ہے ہی مگر اس کی متنوع ثقافت کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ یہاں 140ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں جو 200سے زائد زبانیں بولتے ہیں مگر انسانیت نے انہیں جوڑ رکھا ہے۔ یہ کوئی قدیم شہر نہیں ہے بلکہ 1781ءمیں میکسیکو کے 44آباد کاروں نے لاس اینجلس کی بنیاد رکھی اور غالبا ً1847ءمیں یہ شہر امریکہ کا حصہ بنا۔اس وقت یہاں بڑے پیمانے پر خوفناک آگ لگی ہوئی ہے، اگر خدانخواستہ یہ آگ کسی گنجان آبادی والے شہر میں لگتی تو اس وقت ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ۔ لیکن یہاں 16 ہلاکتیں تو متعین ہیں لیکن حتمی تعداد کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جبکہ اس کے علاوہ یہاں 12ہزار 300 سے زیادہ گھر اور تنصیبات جل کر راکھ ہو چکی ہیں اور 67 ہزار سے زیادہ تعمیرات خطرے میں ہیں۔ 36 ہزار ایکڑ پر پھیلی ہوئی یہ آگ لاس اینجلس بلکہ پوری ریاست کیلیفورنیا کی بھیانک ترین آگ ہے۔ اور ابھی تک جو تخمینہ لگایا گیا ہے اُس کے مطابق 150ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، پورے کے پورے علاقے اور بستیاں راکھ کر دینے کے بعد بھی یہ آگ زیادہ تر جگہوں پر ابھی تک بے قابو ہے۔ یہ آگ کہنے کو ایک ہے، دراصل یہ مختلف آگوں کا سلسلہ ہے جو ایک ساتھ بھڑک اٹھی ہیں۔ یہ آگ کس طرح لگیں یا دانستہ لگائی گئیں،تحقیقات جاری ہیں اور کم از کم تین جگہوں کی آگ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ انسانی لگائی ہوئی آگ ہے، خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ۔ لیکن فی الوقت اسے قدرتی آفت ہی قرار دیا جا رہا ہے۔ اور مزید تحقیقات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ بقول شاعر
اپنے جلنے کا ہمیشہ سے تماشائی ہوں
آگ یہ کس نے لگائی مجھے معلوم نہیں
مگر اس کے برعکس عین اُس وقت جب کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہوا ہے، پاکستانیوں نے فوری طور پر اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور کہا کہ یہ غزہ کے بدلے میں اللہ نے عذاب بھیجا ہے، یعنی عذاب والا چورن یہاں بھی فروخت کے لیے پیش کر دیا گیا ہے، حالانکہ ہمیں شاید یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ امریکا یا اس جیسا کوئی بھی ملک پہلے درجے کے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں، وہاں مالی نقصان کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہاں سیوریج کے پائپ سے لے کر مکمل گھر تک ہر چیز، گلی کی ہر لائیٹ، ہر گٹر کا ڈھکن انشورڈ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں کی انشورنس کمپنیاں اور بنک اس نقصان کو بھریں گے،،، جن کے لیے یہ کوئی بڑامسئلہ نہیں ہے۔ پھر یہ علاقہ دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے، یعنی شوبز کے مشہور ترین لوگ اور کاروباری لوگ یہاں رہتے ہیں۔ ان کے لیے پیسہ مسئلہ ہی نہیںہے، اور پھر یہ اس لیے بھی مہنگا ہے کیوں کہ اس اس پہاڑی بستی میں بلندی سے بحر الکاہل کا منظر حسین ہوتا ہے۔ اور پہاڑی ڈھلانوں پر چوٹی سے زمین تک نہایت قیمتی گھروں کی قطاریں ہیں۔ جنگل‘ پہاڑ‘ سمندر اور ہوا کا یہ سنگم اسے باقی لاس اینجلس سے منفرد بناتا ہے؛ چنانچہ امیر ترین اور نامور ترین لوگ یہاں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ پیرس ہلٹن‘ انتھونی ہاپکنس‘ میل گبسن‘ جان گڈمین ان نامور ترین لوگوں میں سے چند نام ہیں جن کے گھر جل کر راکھ ہوئے۔
بہرحال بات ہو رہی تھی ہم پاکستانیوں کے ”حسن سلوک“ کی تو ہم کچھ کرنے کے بجائے نہ جانے کیوں بددعاﺅں سے کام چلانے کے عادی ہیں۔ اور دنیا میں کہیں بھی ہمارا کوئی دشمن ہو، اور وہاں آفت آجائے تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ مہذب دنیا میں قدرتی آفت آنا ایک منفی علامت ہوتی ہے، جس پر خوشی کا اظہار کرنا ایک منفی ذہنیت کی عکاسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں اس پر افسوس کرنا چاہیے، ہمیں اُن کے دکھ میں برابر کا شریک ہونا چاہیے۔ اور پھر یہی نہیں اُن کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔
ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس وقت امریکا میں 10لاکھ سے زیادہ پاکستانی اور ایک کروڑ کے قریب مسلمان موجود ہیں، بلکہ ہم خوشیاں منا کر اُن کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔بلکہ میرے ایک دوست بتا رہے تھے کہ اُن کی اسلامی تنظیم ”اکنا ریلیف“ لاس اینجلس میں سیکنڈریسپانس ٹیم کے طور پر ہر وقت وہاں موجود ہے،وہ بتاتے ہیں کہ جیسے ہی لاس اینجلس میں آگ لگنے کی اطلاع ملی، انہوں نے اپنی ٹیم کو فوری طور پر الرٹ کر دیا۔ سیکنڈ ریسپانڈرز کے طور پر اُن کی ٹیم متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی اور فوری طور پر امدادی کاموں کا آغاز کیا۔ ایک وہ اسلامی تنظیم جو فلاحی کام کر رہی ہے، اور دوسرے ہم جو اُن کی تباہی و بربادی کے لیے دن رات دعائیں کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمیں ایسی باتیں زیب دیتی ہیں؟ ہم اپنے آپ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ ہم آخر ہیں کیا؟ ہم نماز پڑھنے کے بعد صبح شام دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ امریکہ کی توپوں میںکیڑے پڑ جائیں ،کفار تباہ و برباد ہوجائیں ،امریکہ نیست و نابود ہوجائے۔اگر یہ دعائیں قبول ہوتیں تو لاس اینجلس میں آگ بھڑکنے کے بجائے پینٹاگان میں دھماکہ ہوتا ،امریکی اسلحہ کے ذخیرے HWADمیںآگ لگتی تو سپر پاور کا غرور خاک میں ملتا اور کفار کو پتہ چلتا کہ عذاب کیا ہوتا ہے۔اور پھر ہمارا اس آگ سے نہ لینا ہے بھی کوئی نہیں ہے،بند ہ پوچھے اگر عذاب ہی کی بات کریں تو غزہ پر بمباری کے بدلے میں سب سے پہلے اسرائیل پر یا تل ابیب پر آفات آنی چاہیے تھیں،،، وہ تو آج بھی روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں فلسطینیوں کو مار رہا ہے۔ اور بدلے میں عرب ممالک چپ چاپ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔

چلیںیہ بھی چھوڑیں! آپ یہ دیکھیں کہ غزہ میں مسلمان ممالک سے زیادہ امداد غیر مسلم ممالک نے پہنچائی ہے، بلکہ یوں کہیں کہ کل امداد کا 95فیصد امریکا و یورپ اور دیگر غیر مسلم ممالک سے جبکہ 5فیصد مسلم ممالک سے امداد موصول ہوئی ہے، اس سے بھی آگے چلیں اور دیکھیں کہ غزہ میں ابھی بھی ریڈکراس کے ہزاروں غیر مسلم کارکن مسلم بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا علاج کرنے میں مصروف ہیں، یہی نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم کارکنوں، صحافیوں اور دیگر افراد نے بھی یہاں پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ پھر غزہ میں جنگ بندی کو لے کر ان غیر مسلم ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرے ہوئے ہیں، جو یہاں کی عوام نے ہی کیے ہیں،،، بلکہ کئی مظاہرے تو ایسے تھے جس میں دس دس لاکھ افراد کا بھی مجمع دیکھا گیا۔ مگر مجال ہے کہ کسی مسلم ملک میں ہمیں کوئی بڑا اجتماع دیکھنے کو مل رہا ہو، جس میں لاکھوں نہیں ہزاروں کا مجمع بھی دیکھا گیا ہو۔ یا پاکستان ہی میں کوئی بڑا احتجاج دیکھا گیا ہو، جس نے ان ممالک کو ہلا کر رکھ دیا ہو۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے سوشل میڈیا پر خوب طوفان بدتمیزی پیدا کیا ہوا ہے کہ اللہ کا عذاب امریکا پر نازل ہو چکا ہے، وغیر ہ وغیرہ۔

حالانکہ ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ اس ”عذاب“ میں محض 16بندے مرے ہیں،،، جبکہ اتنے بندے تو ویسے ہی ہمارے ملک میں اکا دکا بسوں سے اُتار کر مار دیے جاتے ہیں،،، بلکہ اس دس گنازیادہ بندے تو ابھی حال ہی میں ہم پارہ چنار میں مارے ہیں،،، یا اس سے بیس گنا بندے تو ہم نے بھتہ نہ دینے پر کراچی میں موجود ایک فیکٹری کو آگ لگا دی تھی جس میں 285افراد دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی نذر ہوگئے تھے۔ آپ اس کی بھی کیا بات کرتے ہیں،،، بلکہ عذاب تو یہاں اُس وقت آیا تھا جب پٹرول اکٹھا کرتی عوام آگ کی لپیٹ میں آگئی تھی، تو اُس وقت بھی 3سو بندہ ایک ہی گاﺅں کا ہلاک ہو گیا تھا۔ پھر یہی نہیں بلکہ یہاں تو زلزوں ، سیلابوں اور دیگر آفات سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔

یقین مانیں ہم تو ایسے Behaveکرتے ہیں جیسے ہم ابھی اسرائیل سے ٹکر لیں گے، اور اُسے پاش پاش کردیں گے، جبکہ ہماری اوقات یہ ہے کہ کوئی مسلم ملک اسرائیل کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکا۔ ہم صرف باتیں کرنے والی قوم ہیں ، عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتے۔ اس لیے میرے خیال میں اُن لوگوں کے لیے ہمیں مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہییئں، جو امریکہ میں رہتے ہوئے پاکستانی معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ جو یہاں کما کر ڈالر بھیجتے ہیں۔ چلیں یہ باتیں چھوڑ دیں،،، کیا اس وقت بھی ملک کی سینکڑوں این جی اوز امریکی امداد پر نہیں چل رہیں؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ امریکا کے علاوہ کسی اور ملک نے پاکستان کی کبھی مالی و معاشی مدد کی ہے؟ اگر یہ باتیں سچ ہیں تو خدارا اپنے گریبان میں ضرور جھانکیے کہ ہم کیا ہیں؟ ہماری اوقات کیا ہے؟ لہٰذاہمیں سب سے پہلے اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے، پھر اپنے اندر انسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جن کا نقصان ہوا، وہ تو جلد یا بدیر پورا ہو ہی جائے گا اور امریکہ جتنی بڑی معاشی طاقت ہے‘ باقی کسر حکومت پوری کر دے گی لیکن ہمارا کیا ہوگا؟ باقی آپ خود سمجھدار ہیں ،،، اسی لیے کہتے ہیں کہ
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا
ڈیگر تے دن ھویا محمد اوڑک نوں ڈب جانا
بشکریہ
Tuesday’s Column ,Daily 92 News & Daily Leader.� �

اپنا تبصرہ لکھیں