صفوراامجد
اکیسویں صدی کا انسان بظاہر تو ہجوم میں گھرا ہوا ہے لیکن حقیقت میں اس کے اندر ایک سناٹا ہے جو چیخ چیخ کر خاموشی کی شدت بیان کرتا ہے۔ تنہائی انسان کو صرف ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔تنہائی دیگر ذہنی امراض یعنی ڈپریشن، بے چینی اور خود کشی کے خیالات کو بڑھاوا دیتی ہے۔ تنہائی وقت سے پہلے موت کے خطرے کو 26 فیصد تک بڑھا دیتی ہے ۔
WHO کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 3 سے 5 فیصد اموات ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ایک تحقیق (Harvard& meta Analysis ,2023) کے مطابق تنہائی روزانہ 15 سگریٹ پینے کے برابر صحت کو نقصان دیتی ہے۔ برطانیہ میں 2018 میں باقاعدہ طور پر Minister of Lonelines کا عہدہ متعارف کروایا گیا جس کا مقصد اس انتہائی خطرناک مسئلے سے نمٹنا تھا ۔ ایک اور تحقیق کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 7 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن اور تنہائی کے باعث خود کشی کرتے ہیں۔
(WHO 2022) کی رپورٹ کے مطا بق پاکستان میں ہر 500,000 افراد کے لیے صرف 1 ماہر نفسیات دستیاب ہے. لاہور کراچی ، اسلام آباد ، اور پشاور میں سال 2024 میں طلبہ کی خودکشی کے تقریباً 40 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے کئی میں تنہائی اور والدین سے کمیونیکیشن گیپ کو وجہ قرار دیا گیا ۔
ذہنی امراض کو اتنی توجہ پاکستان میں تاحال نہیں دی جاتی ہے۔ ماہر نفسیات کے پاس جانا، یا علاج کروانا شرم کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح ماہر نفسیات کو پاگلوں کا ڈاکٹر سمجھنے والا طبقہ خود ہی ذہنی بیماری میں ڈوب جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں جسمانی بیماری پر فوری علاج معالجے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن ذہنی صحت کے مسائل پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ اس طرح کا رویہ معاشرے کی کم عقلی کا عملی ثبوت ہے۔
تنہائی نوجوانوں ، خواتین اور بزرگوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر تو دنیا سے جڑے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں نہ کوئی سننے والا ہوتا ہے اور نہ ہی جذبات کو سمجھنے والا ۔ہماری پوسٹس تو سب کو نظر آتی ہیں مگر ہماری حقیقی کیفیت کوئی نہیں سمجھتا۔ دوستوں سے بات چیت تو ہو رہی ہوتی ہے لیکن خلوص کہیں کھو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں ہمیں دنیا سے جوڑا ہے وہیں دلوں میں فاصلے اور ذہنوں میں خاموشی بڑھا دی ہے۔
تنہائی ایک خاموش قاتل ہے جو آہستہ آہستہ دل اور دماغ کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے ۔ یہ خاموشی سے انسان کی مسکراہٹ چرا لیتی ہے۔ جب انسان لوگوں میں رہ کر بھی جذباتی طور پر اکیلا ہو جاتا ہے تب تنہائی خاموش قاتل کی طرح حملہ آور ہوتی ہے۔ تنہائی کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سوشل میڈیا کو نہیں بلکہ رشتوں کو وقت دینا ہے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور چہروں کے پیچھے چھپی خاموشی کو محسوس کریں کیونکہ آپ کا ایک امید بھرا جملہ بھی کسی کی زندگی بچا سکتا ہے۔