اکرام بکائنوی
پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے جہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اہم ہیں، وہیں بلدیاتی انتخابات بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلدیاتی نظام وہ نظامِ حکومت ہے جو براہِ راست عوام کی دہلیز پر مسائل کے حل کو یقینی بنانے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ 2025 ءمیں پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں، اور اس عمل کا تجزیہ ملکی جمہوریت، عوامی شعور اور انتظامی ڈھانچے کے استحکام کے لیے نہایت اہم ہے۔
پاکستان میں بلدیاتی نظام کی بنیاد قیامِ پاکستان کے فوراً بعد رکھی گئی۔ 1959ء میں ایوب خان کے دور میں "بیسک ڈیموکریسیز سسٹم” کے تحت مقامی حکومتوں کا تصور متعارف ہوا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور جمہوری ادوار میں بھی مختلف شکلوں میں یہ نظام موجود رہا۔ آئینِ پاکستان 1973 کی آرٹیکل 140-A صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ بلدیاتی ادارے قائم کریں تاکہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں۔ تاہم عملی طور پر دیکھا جائے تو اکثر حکومتیں بلدیاتی انتخابات تاخیر سے کراتی رہی ہیں۔ صوبے اپنی سیاسی ترجیحات کے مطابق اس نظام کو فعال یا معطل رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مقامی حکومتوں کا ڈھانچہ مکمل طور پر مستحکم نہیں ہو سکا۔
سال 2025ء میں بلدیاتی انتخابات کی تیاری پاکستان کے تمام صوبوں میں مختلف نوعیت کی ہے۔ پنجاب میں نئی حلقہ بندیاں مکمل ہو چکی ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شیڈول کی منظوری کے لیے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ سندھ میں دوسری مدت کے بلدیاتی نمائندے اپنی مدت پوری کر چکے ہیں اور نئی مردم شماری کے بعد حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 2021 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد اب ضمنی اور جزوی انتخابات کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی صوبائی حکومت نے بلدیاتی ڈھانچے کی تنظیمِ نو کے لیے تجاویز دی ہیں تاکہ عوامی سطح پر ترقیاتی عمل میں شمولیت بڑھائی جا سکے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) بلدیاتی انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ 2025 کے انتخابات کے لیے ECP نے نئی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کیں، ووٹر لسٹوں کو نادرا کے تعاون سے اپ ڈیٹ کیا، پولنگ اسٹیشنز کی فہرست جاری کی اور حساس مقامات کی نشاندہی کی۔ الیکشن عملے کے لیے تربیتی پروگرام شروع کیے تاکہ ووٹنگ، گنتی اور رزلٹ ٹرانسمیشن کے عمل میں شفافیت لائی جا سکے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ٹیکنالوجی بیسڈ نگرانی پر بھی کام ہو رہا ہے تاکہ پولنگ اسٹیشنز سے نتائج براہِ راست مرکزی سرور پر منتقل ہوں اور نتائج میں تاخیر یا دھاندلی کے امکانات کم ہوں۔
سال 2025ء کے بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے اپنی مقامی سطح پر تنظیم نو شروع کر دی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنے مضبوط ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کے لیے مقامی قیادت کو فعال کر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اپنے روایتی گڑھ کو مزید منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (PTI) جو 2024ء کے عام انتخابات کے بعد اپوزیشن میں ہے، وہ بلدیاتی سطح پر دوبارہ عوامی تائید حاصل کرنے کی حکمتِ عملی بنا رہی ہے۔ جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتیں بھی اپنے مخصوص علاقوں میں متحرک کردار ادا کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوامی رابطے بحال کریں کیونکہ یہی وہ سطح ہے جہاں سے حقیقی عوامی اعتماد قائم ہوتا ہے۔
پاکستان میں بلدیاتی الیکشن کو اکثر لوگ عام انتخابات کے مقابلے میں کم اہم سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مقامی حکومت ہی عوام کی روزمرہ زندگی پر سب سے زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ 2025 میں ووٹروں میں شعور پہلے سے زیادہ بڑھا ہے۔ شہری علاقوں میں لوگ صفائی، پینے کے پانی، نکاسی، گلیوں کی تعمیر، بجلی کے مسائل اور تعلیمی سہولیات جیسے موضوعات پر امیدواروں سے سوال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے بھی عوامی آگاہی میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ووٹر اب امیدوار کی ساکھ، پچھلا ریکارڈ اور وعدوں کی حقیقت کو پرکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میڈیا بلدیاتی الیکشن کے عمل میں شفافیت اور عوامی دلچسپی پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ 2025 میں الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر انتخابی مہمات کی کوریج پہلے سے زیادہ وسیع ہو چکی ہے۔ نیوز چینلز پر مباحثے، اخبارات میں تجزیاتی مضامین، اور سوشل میڈیا پر لائیو مہمات ان سب نے عوام کو براہِ راست امیدواروں کے بیانات اور وعدوں تک رسائی دی ہے۔ تاہم میڈیا کو یہ تنقید بھی برداشت کرنی پڑ رہی ہے کہ بعض ادارے مخصوص سیاسی جماعتوں کی حمایت یا مخالفت میں جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اس لیے غیرجانبداری کا تقاضا مزید بڑھ گیا ہے۔
بلدیاتی ادارے وہ پلیٹ فارم ہیں جہاں خواتین اور نوجوانوں کو عملی سیاست میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ 2025 کے الیکشن میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے ساتھ ساتھ عام نشستوں پر بھی حصہ لینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ نوجوانوں کے لیے بھی یہ موقع ہے کہ وہ اپنے علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں میں براہِ راست کردار ادا کریں۔ مختلف این جی اوز اور سول سوسائٹی تنظیمیں بھی خواتین و نوجوان ووٹرز کو فعال کرنے کے لیے آگاہی مہمات چلا رہی ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے عمل میں انتظامی مشکلات ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ 2025 میں سب سے بڑا چیلنج سیکیورٹی، شفافیت، اور فنڈز کی کمی ہے۔ بعض اضلاع میں امن و امان کی صورتحال کے باعث حساس پولنگ اسٹیشنز پر رینجرز یا پولیس کی اضافی تعیناتی ضروری ہے۔ بیلٹ پیپرز اور انتخابی مواد کی بروقت ترسیل بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مالی وسائل کی کمی کے باعث کئی اضلاع میں انتخابی عمل محدود پیمانے پر انجام پاتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے ان چیلنجز کے مقابلے کے لیے مربوط حکمتِ عملی تیار کی ہے، لیکن عملی کامیابی کا انحصار انتظامیہ اور عوامی تعاون پر ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس بار نتائج کے نظام میں الیکٹرانک رپورٹنگ کا تجربہ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ نتائج میں تاخیر اور دباؤ سے بچا جا سکے۔ علاوہ ازیں، پریذائیڈنگ افسران کی تربیت، میڈیا مانیٹرنگ، اور انتخابی ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ شفافیت کا تعلق صرف حکومت یا الیکشن کمیشن سے نہیں بلکہ امیدواروں اور عوام کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں اور خرید و فروخت، دھمکی یا دھاندلی جیسے عناصر کو مسترد کریں۔ بلدیاتی اداروں کی فعالیت سے عوام کو مقامی سطح پر اختیارات ملتے ہیں۔ نکاسی آب، صفائی، سڑکوں کی مرمت، بنیادی تعلیم اور صحت جیسے مسائل کے حل کے لیے جب مقامی نمائندے ذمہ دار بنتے ہیں تو ترقی کی رفتار بڑھتی ہے۔
پاکستان میں جب بھی بلدیاتی ادارے فعال ہوئے، عوامی فلاح کے منصوبوں میں تیزی دیکھی گئی۔ اس کے برعکس جب یہ ادارے معطل ہوئے ، تو اختیارات صرف بیوروکریسی کے ہاتھ میں چلے گئے اور عوامی فاصلہ بڑھا۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات، حلقہ بندیوں پر اعتراضات اور عدالتوں میں درخواستیں، فنڈز کی غیرمنصفانہ تقسیم، اور الیکشن کے بعد اختیارات کی منتقلی میں تاخیریہ تمام عوامل بلدیاتی نظام کے استحکام میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے چند بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں: بلدیاتی اداروں کے لیے مستقل آئینی مدت کا تحفظ ہو۔ صوبائی حکومتیں منتخب نمائندوں کو فوری طور پر فنڈز اور اختیارات منتقل کریں۔ الیکشن کمیشن کے ماتحت بلدیاتی فنانس کمیشن قائم کیا جائے۔ عوامی احتساب کے لیے ڈیجیٹل شفافیت سسٹم بنایا جائے تاکہ ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی ہو سکے۔ بلدیاتی نمائندوں کی تربیت کے لیے ادارہ جاتی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ بلدیاتی انتخابات دراصل جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ نظام شفاف، موثر اور منصفانہ طریقے سے فعال ہو جائے تو پاکستان میں عوامی فلاح، شفاف گورننس اور مقامی ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
2025 کے موجودہ حالات میں جہاں سیاسی تناؤ، معاشی دباؤ اور عوامی بے اعتمادی موجود ہے، وہاں بلدیاتی الیکشن ایک نئی امید کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ شفاف انتخابات، عوامی شرکت، اور سیاسی بالغ نظری ہی وہ عناصر ہیں جو اس امید کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ اگر تمام فریق حکومت، اپوزیشن، الیکشن کمیشن، میڈیا، اور عوام اپنا کردار دیانتداری سے ادا کریں تو پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط اور عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔