WhatsApp Image 2025 01 31 at 01.55.00

کوئٹہ میں ٹرانسپورٹ اورمنصوبہ بندی کا فقدان

مطیع اللہ مطیع

ایک عام شہری کی طرح معاشرتی برائیوں کو دیکھتے ہوئے دکھ ہوتاہے لیکن پھر قلم کے ذریعے ان برائیوں کااجاگر کرنے کاایک موقع بحیثیت صحافی اللہ تعالیٰ نے دیاہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان مل کر ہی معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں،اگر انسان تشکیل میں بنیادی مسائل کو زیر بحث لاتاہے تو آگے بڑھ کر ان مسائل کاادراک آسانی سے کیاجاسکتاہے،لیکن اگر مسائل کو زیر غور نہیں لایاجاتا نہ صرف اشرف المخلوقات مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ بے زبان جانور بھی اس مشکل میں گر جاتے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی آبادی سالانہ بنیادوں پر بڑھ رہی ہے یہاں رہنے والے انسانوں کی تعداد 25لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے.انسانوں کی آبادی میں اضافے کے ساتھ یہاں کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے.پانی،گیس،بجلی،صحت،تعلیم،انفراسٹرکچر روز مرہ کے مسائل ہیں، لیکن ٹرانسپورٹ کامسئلہ بھی وقت کے ساتھ گھمبیر ہورہاہے.حکومتیں آبادی کے تناسب سے عوامی مسائل میں کمی کیلئے منصوبہ بندی کرتے ہیں،لیکن کوئٹہ واحد دارالحکومت ہے،جہاں منصوبہ بندی کا فقدان نظر آ رہا ہے.اس فقدان کی سیاسی وجوہات کے علاوہ عدم دلچسپی بھی ہوسکتی ہے۔کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اعلیٰٰ آفیسر سے ایک تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے ملاقات ہوئی تو دوران انٹرویو کچھ باتیں آف دی ریکارڈ بتائیں۔

اگر چہ انگریزوں نے 1935ء کے زلزلے کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ سڑکیں بنائی تھی،لیکن بعدازاں جب ہمارے حاجی صاحبان کے ہاتھوں حکومت آئی تو حالات بہتری کی بجائے ابتری کی جانب بڑھنے لگے،موصوف نے جن روڈوں کا ذکر کیاکہ مذکورہ سڑکیں اتنی فٹ کی ہی تھیں،جو اب آہستہ آہستہ قبضہ ہوکر اتنی فٹ رہ گئیں جب ایگزیکٹو گروپ کے عبدالواحد کاکڑ ڈپٹی کمشنر تھے،تو چیمبرآف کامرس کے دورے کے موقع پر انہوں نے سڑکوں کیلئے مختص زمین پرقبضہ کاانکشاف کیاتھا ۔اس وقت کے وزیراعلیٰ جام کمال نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالاتھا تو شہر کی سڑکوں کے حوالے سے منصوبہ بندی شروع کی تھا اور کئی دہائیوں بعد پہلی بار بلوچستان کے باسیوں کو ٹرانسپورٹ کا ماحول دوست منصوبہ گرین بسوں کی شکل میں دیا گیا،لیکن کاغذی کارروائی کے باعث وہ منصوبہ بھی کئی سال بعد شروع ہوا جہاں روزانہ ہزاروں مسافر ان بسوں میں سفر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ کوئی ایسا ماحول وعوام دوست منصوبہ نہیں کہ جس کے حوالے سے کہا جائے کہ عوامی مفاد کا بہترین منصوبہ ہوں۔
WhatsApp Image 2025 01 31 at 02.01.09
صحافتی زندگی کاایک فائدہ ہے کہ آپ نت نئے لوگوں کے ساتھ ملتے رہتے ہیں اور کچھ نیا سیکھنے کو ملتاہے.یہاں بھی ایک دوست سے ملا تو کچھ معلومات ملی کہ چیف سیکرٹری بلوچستان ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کچھ دلچسپی لے رہے ہیں لیکن سیاسی حوالے سے سرپرستی کافقدان ہے۔میرے جیسے بہت سوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہوگا کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ کیوں یوں زبوں حالی کاشکار ہے وہ اس لئے کہ سیاسی وژن نہیں ہے.ہماری تو زیادہ تر توجہ تعمیرات پر ہوتی ہے۔کوئٹہ شہر جو آہستہ آہستہ پھیل رہاہے کو اورنج بس،بی آر ٹی جیسے منصوبوں کی ضرورت ہے پہلے یہ شہر جہاں ہزاروں لوگوں کیلئے بنا تھا اب اس شہر میں لاکھوں لوگ رہ رہے ہیں،اطراف سے لوگ شہر کی طرف سے سفر کرتے ہیں لیکن گرین بس منصوبے کے 10بسیں سریاب ،کچلاک ،ہنہ اوڑک ،مشرقی بائی پاس ،مغربی بائی پاس ،بلیلی وگردونواح سے کیسے لوگوں کو سفر مہیا کرسکتاہے ؟ اس کا تو ایک ہی روٹ بیوٹمز یونیورسٹی سے ائیرپورٹ روڈ، زرغون روڈسے سریاب روڈ بلوچستان یونیورسٹی تک ہے.شروع شروع میں تو کہا جارہا تھا کہ گرین بسیں نہیں چلیں گی لیکن جب ایک صاف ماحول کسی کو میسر ہوں تو لازمی استفادہ حاصل کرے گا۔یہاں ایک مثال دوں تو شاید اور بھی آسانی ہو.میں امداد چوک پر واقع ایک دوست کے دفتر میں بیٹھا تو ایک بزرگ آیا سلام دعا کے بعد کسی دوسرے ساتھی نے بزرگ سے دریافت کیا کہ آپ کا گھر تو ائیرپورٹ روڈ پرواقع ہے،آپ اس عمر میں گاڑی بھی نہیں چلا پا رہے تو یہاں تک کیسے پہنچے حالانکہ وہ بزرگ اچھے خاصے امیر تھے بلکہ بقول ان کے گھر میں دو گاڑیاں بھی کھڑی تھی تو بزرگ نے بتایاکہ میں گھر سے نکلا،ائیرپورٹ روڈ پر گرین بس میں سوار ہوا اور یہاں امداد چوک کے گرین بس اسٹیشن پر اتر گیا تھوڑی سی چہل قدمی کی اور یہاں تک پہنچ گیا اس بزرگ نے اب روٹین بنالی ہے وہ امداد چوک تک گرین بس میں سفر کرکے آتے ہیں۔ایسے ہی ماحول دوست منصوبوں کی کوئٹہ کو ضرورت ہے دنیا ترقی کررہی ہے اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ کی طرف بڑھ رہی ہے،بدقسمتی سے ہم آج بھی 90کی دہائیوں میں سفر کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اس کالم کے توسط سے وزیراعلیٰ بلوچستان،چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ٹرانسپورٹ سے درخواست ہے کہ شہر کے ٹرانسپورٹ کے شعبے کی بہتری کیلئے آگے آئیں تاکہ یہاں کے شہریوں کو بھی ایک ماحول دوست سفر کی سہولت میسر ہو۔

WhatsApp Image 2025 01 07 at 06.25.14 1
مطیع اللہ مطیع

اپنا تبصرہ لکھیں