یکم مئی کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یومِ مزدور یا لیبر ڈے منایا جاتا ہے، جو محنت کشوں کی قربانیوں، جدوجہد اور حقوق کے تحفظ کی یاد دلاتا ہے۔ تاہم، اس دن کی رسمی تقریبات کے پیچھے پاکستانی مزدوروں کی تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے—جہاں کم اجرت، طویل اوقاتِ کار، حفاظتی اقدامات کی کمی اور قانونی تحفظ کی عدم دستیابی نے محنت کشوں کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔
پاکستان میں لیبر قوانین اور عملدرآمد کی صورتحال اور کم از کم اجرت کے تعین کے ضمن میں زمینی حقائق کے مطابق حکومتِ پاکستان نے غیر ہنرمند مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت 37 ہزار روپے، نیم ہنرمند کے لیے 40 سے 42 ہزار روپے اور ہنرمند مزدوروں کے لیے 45 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی ہے۔ لیکن عملی طور پر اکثر مزدوروں کو یہ اجرت نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر، اسلام آباد اور پنجاب میں ایک سکیورٹی گارڈ مقررہ اجرت سے کہیںکم ماہانہ پر کام کر رہے ہیں، جبکہ ان سیکورٹی گارڈز کی کمپنیاں ادارے سے پورے 37 ہزار روپے ہی وصول کرتی ہے۔
قانون کے مطابق 8 گھنٹے یومیہ کام کی حد مقرر ہے، لیکن بیشتر فیکٹریوں، تعمیراتی سائٹس اور نجی اداروں میں مزدوروں سے 12 سے 16 گھنٹے تک کام لیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اضافی اجرت نہیں دی جاتی کہ…….۔
ہم پیٹ بھرے لوگوں کی تعطیل کا دن ہے
غربت زدہ چہروں کی یہ تمثیل کا دن ہے
اک ڈھونگ ہے اک دھوکہ ہے اک فعل ریا ہے
یکم مئی اصل میں مزدور کی تذلیل کا دن ہے
پاکستان میں 83 فیصد مزدور غیر رسمی شعبے سے وابستہ ہیں، جہاں سوشل سیکیورٹی یا حفاظتی قوانین کا کوئی اطلاق نہیں۔ ہر سال ہزاروں مزدور حادثات کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے اکثر کی رپورٹ تک درج نہیں ہوتی۔ تعمیراتی اور صنعتی شعبوں میں حفاظتی سامان کی شدید کمی ہے۔
خواتین مزدوروں کو کم اجرت کے ساتھ جنسی ہراسانی اور غیر محفوظ ماحول کا سامنا ہے، جبکہ چائلڈ لیبر کا مسئلہ سنگین ہے، جہاں غربت کے باعث بچے سکول کی بجائے فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بھٹہ خشت، کھیتوں، دکانوں اور گھروںمیں سرعام کام کرتے کم عمر بچے اور بچیاں لیبر قوانین کا کھلے عام مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں، گھروںمیں بچوں کی بڑی تعداد تشدد اور جان سے گذرنے کے بعد بھی ان قوانین پر پوری طرح عملدرآمد کے لئے کئی اور بچوں کی زندگیاںداؤ پر ہیں.
لیبر ڈیپارٹمنٹ، EOBI (Employees’ Old-Age Benefits Institution) اور سوشل سیکیورٹی جیسے ادارے مزدوروں کے حقوق کے بجائے مبینہ طور پر بدعنوانی اور عدم توجہی کا شکار ہیں۔ مذکورہ محکموں کے کرتا دھرتا مبینہ طور پر زاتی مفادات کے عوض قانونی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔
بقول شاعر…..
امیروں کی لب و رُخسار کی یہ سرخیاں کیسی
جو دیکھا غور سے تو سب غریبوں کا لہو نکلا!
آج یکم مئی 2025 کو جب ملک بھر میں سرکاری چھٹی ہے، لاکھوں مزدور دیہاڑی کی تلاش میں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ ایک مزدور کے الفاظ میں:
"ہم زندگی تھوڑی جی رہے ہیں، بس سسک سسک کر گزار رہے ہیں۔”
مہنگائی نے مزدوروں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہےتوغیر رسمی شعبے کے مزدوروں کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں۔دوسریجانبٹریڈ یونینز کی کمزوری کی وجہ سے مزدور اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا پاتے۔
حکومت کی جانب سے لیبر قوانین موجود ہیں، لیکن عملدرآمد کی شدید کمی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کم از کم اجرت کو مہنگائی کے تناسب سے بڑھایا جائے۔ غیر رسمی شعبے کو رجسٹرڈ کیا جائے تاکہ مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی مل سکے۔ حفاظتی قوانین پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ ٹریڈ یونینز کو مضبوط کیا جائے تاکہ مزدور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں۔
آخری بات یہ کہ یومِ مزدور صرف تقریبات کا نام نہیں، بلکہ اس دن ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ جب تک مزدوروں کو ان کا جائز حق نہیں ملے گا، پاکستان کی ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔
بطور مسلمان تمام مذہبی فرائض ادا کرتے ہوئے اس حکم کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ "مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔” (سنن ابن ماجہ)