کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی زیر صدارت قائم ڈویلپمنٹ کمیٹی نے 18 ارب روپے کے غیر ADP سکیم کے منصوبے کی منظوری دے دی۔
اس منصوبے کے تحت ایک 14 منزلہ جدید عمارت تعمیر کی جائے گی، جس میں کراچی کے سینٹرل، جنوبی، مشرقی اور مغربی اضلاع کی 125 عدالتیں قائم کی جائیں گی، جبکہ دو منزلیں صرف پارکنگ کے لیے مختص ہوں گی۔ یہ فیصلہ سندھ حکومت کو وسائل کی الاٹمنٹ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ ایڈووکیٹ ضیاء احمد اعوان کی دائر کردہ آئینی درخواست CP D-400/2025 میں اجاگر کیے گئے مسائل اور عدالتوں میں مقدمات کے بڑھتے بوجھ، نیز ججز کی تقرریوں کے تناظر میں تشکیل دیا گیا ہے۔
اس ضمن میںگزشتہ روز ہونے والی پریس کانفرنس میںسندھ بار کونسل کے رہنماؤں اور دیگر رکلا نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں وکلاء پر ہونے والے تشدد، F بلاک میں آگ لگنے کے واقعے اور سیکیورٹی کی موجودہ صورتحال نے عدالتوں کی غیر محفوظ حالت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
ایس پی سٹی کی جانب سے عدالتی حکم کے تحت اسی روز کی گئی سیکیورٹی ریویو رپورٹ میں درج ذیل سنگین خامیوں کی نشاندہی کی گئی کہ تینوں بیکج اسکینر ناکارہ، تینوں ویہیکل ڈیلٹا بیریئرز بند، واک تھرو گیٹ غیر فعال،سی سی ٹی وی کیمرے خراب، ایگزٹ گیٹس ناقص ہے اور ڈی جے ایسٹ کے داخلی راستے کا غیرقانونی استعمال جو غیر مجاز افراد کی رسائی کا باعث بن رہا ہے. اس طرحعدالت کے اندر بھکاریوں اور غیر متعلقہ دکانداروں کی موجودگی کے ساتھ یہ تمام خامیاں ایک سنگین داخلی و خارجی خطرہ ہیں، اور ان کی دائر کردہ آئینی درخواست میں ان خدشات کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔
ضیاء احمد اعوان نے کہا کہ انہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو ایک خط ارسال کیا ہے، جس میں گزارش کی گئی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے فیصلہ سازوں کو ایک میز پر بٹھایا جائے تاکہ عدالتی احکامات پر فوری اور مشترکہ عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔
قبل ازیں F بلاک میں آگ لگنے سے عدالتی ریکارڈ تباہ ہو گیا، جبکہ فائر فائٹنگ کا کوئی عملی نظام موجود نہیں۔ نہ فائر ہائیڈرنٹس، نہ ریت کی بالٹیاں، جو ان عدالتوں کو ایک ‘حادثے کے منتظر مقام’ بنا دیتے ہیں۔
عدالتی اصلاحات کی آئینی درخواست کے نتیجے میں پانچوں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی جمع کردہ رپورٹس میں عدالتوں میں جگہ کی شدید کمی، ججز کے لیے الگ چیمبرز کی عدم موجودگی، اور مقدمات کے بوجھ کے باعث غیر محفوظ توسیع و ریکارڈ کی سیکورٹی جیسے مسائل کی نشاندہی کی گئی۔سفارشات میں فیملی کورٹس کے لیے علیحدہ بلاک، بچوں و خواتین کے لیے مخصوص محفوظ ملاقات گاہیں، اور معذور افراد کے لیے بہتر رسائی (رامپس، مخصوص بیت الخلاء) شامل ہیں۔
آئی ٹی انفرااسٹرکچر، ریکارڈ رومز کی حفاظت، سیکیورٹی کیمروں کی تنصیب، اور بخشی خانہ کی توسیع جیسے اقدامات کی بھی سفارش کی گئی ہے تاکہ عدالتی عمل کو محفوظ، جدید اور موثر بنایا جا سکے۔
ورکس اینڈ سروسز ڈیپارٹمنٹ نے موجودہ عدالتوں کی بہتری کے لیے 2 ارب روپے کا علیحدہ منصوبہ پیش کیا ہے۔اس منصوبے میں تمام پانچ اضلاع (جنوبی، وسطی، مشرقی، مغربی، اور ملیر) کی عدالتوں کے لیے مکمل سول ورک، چھتوں کی مرمت، پینٹنگ، اور واٹر پروفنگ شامل ہے۔ ساتھ ہی سینیٹری سسٹمز کی تبدیلی، الیکٹریکل وائرنگ کی اپ گریڈیشن، اور انرجی ایفیشنٹ لائٹنگ کی تنصیب کی جائے گی۔منصوبے میں نئی لفٹس کی تنصیب، ایئر کنڈیشننگ سسٹمز، آگ بجھانے کے آلات اور ایمرجنسی الارم بھی شامل ہیں تاکہ فائر سیفٹی یقینی بنائی جا سکے۔
عدالتوں، ججوں، وکلاء، اور عوام کے لیے نیا فرنیچر، بہتر بیٹھنے کی سہولت، اور سپروائزری اخراجات بھی اس بجٹ میں شامل کیے گئے ہیں تاکہ عدالتوں کو محفوظ، فعال اور باوقار بنایا جا سکے۔یہ تمام کام سندھ حکومت کے ورکس اینڈ سروسز ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی میں مکمل کیے جائیں گے۔
وکلاء رہنماؤںنے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مرکزی عدالتی کمپلیکس کو جلد از جلد جگہ الاٹ کی جائے اور اس کی تعمیر کو فنڈ کیا جائے، اور موجودہ عدالتوں کی بہتری کا عمل ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے۔یہ صرف اینٹ اور سیمنٹ کی عمارت نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی، عدلیہ کی آزادی، اور عوامی اعتماد کی بحالی کی سمت ایک تاریخی قدم ہے۔
ایڈووکیٹ ضیاء احمد اعوان، دیگر سینئر وکلاء اور بار رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں مطالبات کیے کہ مرکزی عدالتی کمپلیکس کے لئے جگہ کا انتخاب ابھی تک نہیں ہوا، وہ فوری طور پر الاٹ کی جائے اور اس کو بنانے کا ٹائم فریم طے کر کے اس کو بجٹ میں شامل کیا اور فوری فنڈنگ دی جائے۔
جب تک مرکزی عدالتی کملپلیکس نہیں بنتا موجودہ عدالتوں کی فوری بحالی پر کام شروع کیا جائے جس میں موسمی اثرات اور تنگ عمارتوں میں گھٹن کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالتوں اورججز کے چیمبرز کو ائیرکنڈیشنڈ کیا جائے۔ تمام لفٹس کو بدلا جائے اور کارگولفٹس بھی لگائی جائیں۔ مزید یہ کہ وکلاء کے لئے لائبریری کو بہتر بنایا جائے اور ججز کے لئے الگ لائبریری قائم کی جائے۔ بار روم کو بہتر بنایا جائے۔ صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جائے۔ NICVD کے ساتھ مل کر دل کی بیماری میں فوری امداد اور ڈائگنوسٹکس کا بندوبست کیا جائے۔ پولی کلینک بنایا جائے اور ڈےکئیر سینٹر کی سہولت دی جائے۔
عدالتوں میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے بنا شناختی کارڈ اور بنا کسی کام کے لوگوں کو کورٹس میں آنے کی اجازت نہیں ہونے چاہئے، جن میں خاص طور پر خوانچہ فروش اور بھکاری شامل ہیں۔ مزید سیکورٹی کے لئے وکلا کو انفراریڈ کارڈ ایشو کئے جائیں تاکہ وہ اینٹری پوائنٹس سے بغیر رکاوٹ گزر سکیں اور سائلین کو بھی شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد آنے دیا جائے اور اس کا باقاعدہ کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ رکھا جائے۔ تمام ادارے مربوط حکمت عملی کے ساتھ مل کر عدالتی اصلاحات کو مکمل کریں تاکہ عوام کو جلد، محفوظ، شفاف اور باوقار انصاف مہیا ہو.