جامشورو:سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے دئیے گئے دھرنے پرپولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی،احتجاج دوطرفہ تصادم میںتبدیل ہو گیا.
وفاقی حکومت کی جانب سے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کےفیصلے کے خلاف گزشتہ روز سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے احتجاج کیاگیا، جسکے بعدطلبہ نے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پردھرنا دیا.
احتجاج پر پولیس کی بھاری نفری بھی پہنچ گئی ، جس کے بعد پولیس کی جانب سے طلبہ کو منتشر کرنے کے لئےلاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، اور طلبہ کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیاگیا ہے.
پولیس اور طلبہ کے مابین تصادم جاری ہے،ضلعی انتظامیہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ پولیس حکام کی جانب سے معاملہ ختم کرانے کی کوششیںبھی کی جا رہی ہیں.
کراچی بار ایسوسی ایشن نےیونیورسٹی آف سندھ کے طلبہ پر تشدد کی مذمت کی ہے کہ یہ طلبہ نہر کی غیر قانونی کھدائی اور زرعی زمینوں کے غیر منصفانہ لیزنگ کے خلاف پُرامن احتجاج کر رہے تھے۔کراچی بار ایسوسی ایشن کے مطابق، یہ واقعہ 4 مارچ 2024ء کو پیش آیا، جب پولیس نے طلبہ کے احتجاج کو دبانے کے لیے طاقت کا بے جا استعمال کیا، انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور کئی طلبہ کو گرفتار کر لیا۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی آئینِ پاکستان 1973ء میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق اور آزادیِ اظہار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
کراچی بار ایسوسی ایشن نے اس واقعے کو عدالتی نظام کے ساتھ زیادتی اور قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ بار کے صدر امیر نواز وڑائچ نے فوری طور پر گرفتار طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کیا اور حکومت سے انصاف کی فراہمی یقینی بنانے پر زور دیا۔
ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ معاملہ فوری طور پر انسپکٹر جنرل پولیس، ڈی آئی جی شہید بینظیر آباد اور ایس ایس پی جامشورو کے نوٹس میں لایا جائے اور اس واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
دوسری جانب مرکزی شاہراہ بند ہونے سے شہریوںکو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور احتجاج کے وقت گزرنے والے کئی شہری طلبہ اور پولیس کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں.
واضح رہے کہ وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے بنجر زمینوںکو سیراب کرنے کے منصوبے کے تحت دریائے سندھ سے نئی نہریںنکالنے کے فیصلے کے خلاف سندھ قوم پرست جماعتوںاور رہنماؤں کے ساتھ دیگر جماعتوںکا بھی احتجاج جاری ہے.