ملتان: صوبہ پنجاب میںعوامی سہولت، جعلسازی کے خاتمے اور شفافیت کے فروغ کے لئے لائی گئی ای اسٹامپ پیپر اور نئی کمپیوٹرائزڈ کورٹ فیس ٹکٹ کے بعد جعلسازی عروج پر پہنچنے کا انکشاف ہوا ہے.
پنجاب کے عدالتی احاطوںمیںاصل ای اسٹامپ پیپر اور کورٹ فیس ٹکٹ کو جاپانی اور جعلی کو چائنہ کا نام بھی گونجنے لگا.
لاہور ہائیکورٹ نے بھی عدالتوںمیں داخل کئے گئے اسٹامپ پیپر اور ٹکٹ کو چیک کرنے کے لئے سخت احکامات جاری کر دئیے.
پنجاب میںرائج اسٹامپ پیپر کے پرانے نظام کو متروک اور جعلسازی کامنبع، اور دیوانی و فوجداری مقدمات میں اضافے کا باعث قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا گیا. اس نظام کے تحت محکمہ خزانہ کے علاقائی دفاتر کی جانب سے رجسٹرڈ اسٹامپ فروشوںکو پاکستان پرنٹنگ کارپوریشن کے مخصوص کاغذ پر چھپےہوئے سٹامپ پیپر دئیے جاتےتھے، جن کو کسی بھی خریدار کو دیتے وقت رجسٹر میںدرج کیا جاتا اور لینے والے کی تفصیلات بھی درج کی جاتی تھیں.
اس طرح کورٹ فیس ٹکٹ پر بھی نام اور نمبر لکھ کر رجسٹر میںدرج کیا جاتا تھا.
تاہم اسٹامپ پیپر اور ٹکٹ سابقہ تاریخوںمیںدرج کر کے لوگوںکے مفادات اور جائیداد کو نقصان پہنچانے اور اس جعلسازی و فراڈ پر آئے روز صوبہ کے تھانوںمیںمقدمات کا اندراج معمول تھا.
جس پر حکومت پنجاب کی جانب سے بنک آف پنجاب اور پنجاب بورڈ آف ریونیو کے تعاون سے ای اسٹامپ پیپر کا آغاز کیا گیا. جس کے تحت مختلف رجسٹرڈ افراد کو لاگ ان اور پاسورڈ دیا گیا، جو مختلف عدالتی احاطوںمیںکمپیوٹر کے ذریعے خریدار کے کوائف درج کر کے سادہ کاغذ پر پرنٹ نکال لیا جاتا ہے اور کوائف کا رجسٹر میںبھی اندارج کیا جاتا ہے، اس پر موجود بار کوڈ سے اس اسٹامپ پیپر کی تصدیق بھی کی جا سکتی ہے. جس سے سابقہ تاریخوںمیں اسٹامپ تیار ہونے کا سلسلہ تقریبآ ختم ہو چکا ہے.
اس طرحنئی کورٹ فیس ٹکٹ پر اگرچہ انداراج کا سلسلہ موجود نہیںہے، تاہم اس کو مخصوص چیکنگ لائٹ سسٹم مشین سے اصلی یا نقلی ہونے کی تصدیق کی جا سکتی ہے.
صوبہ پنجاب کی عدالتوںمیں روزانہ کی بنیاد پر کم و بیش سینکڑوں اسٹامپ پیپر اور ہزاروںکورٹ فیس ٹکٹ جمع کرائے جانے کی وجہ سے جعلساز مافیا نے پنجے گاڑ کر جاپانی اور چائنہ اسٹامپ پیپر و ٹکٹ کی اصطلاحمتعارف کرا دی اور ملی بھگت سے فروخت شروع کرنے کے ساتھ عدالتوںمیںجمع کرانے بھی شروع کر دئیے.
جس پر لاہور ہائیکورٹ نے صوبہ بھر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو ہدایات جاری کیںکہ مقدمات کے ساتھ موجود اسٹامپ پیپروں کی چیکنگ کی جائے اور ہر جوڈیشل آفیسر نئے آنے والے اسٹامپ پیپر کی کمپیوٹر آپریٹر سے تصدیق کرائے، جو کیو آر کوڈ کی تصدیق کے بعد اپنی رپورٹلکھے اور اس رپورٹ کے مثبت ہونے کی صورت میں ہی اسٹامپ پیپر کو قبول کیا جائے.
اس طرح عدالتوںکو چیکنگ لائٹ سسٹم مشین بھی فراہم کر دی گئی ہے، جو کورٹ فیس ٹکٹ کی چیکنگ کرے گی اور اصلی ہونے کی صورت میںہی اس کو قبول کیا جائے.
سینیئر قانون دان حماد افضل باجود ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جعلسازی ہمارے معاشرے میںبری طرح سرایت کر چکی ہے، جس سے ملک کا کوئی شعبہ محفوظ نہیں ہے. عدالتوںمیںآنے والے سائل پہلے ہی پریشان حال ہوتےہیں اور حالیہ اسٹامپ پیپر اور کورٹ فیس میںکیا گیا اضافہ ایک نیا معاشی بوجھ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے جعلساز مافیا ایسے پریشان حال لوگوں کا فائدہ اٹھا کر فروخت کرنے میںکامیاب ہو جاتاہے. تاہم عدالت عالیہ کے تصدیقی اقدام کے بعد یقینا جعلسازی کا خاتمہ ہو گا، لیکن جعلسازی کی تصدیق سے فراڈ کا شکار سائلوںکو نجات دلانے کے ساتھ ایسے مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے.
سابق صدر کلرکس بار ایسوسی ایشن ملتان محمد امین ساجد نے بتایا کہ ضلع کچہری میں جاپانی اور چائنہ اسٹامپ پیپر کی اصطلاح متعارف ہونے کے بعد سائلوںکو فراڈ سے خبردار رہنےاور مستند فرد سے اسٹامپ حاصل کرنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں، لیکن جرائم پیشہ افراد پیسے بچانے کے لئے ایسے مافیا کا سہارا لیتے ہیں. انہوںنے بتایا کہ جعلی اسٹا مپ پیپر اور ٹکٹ آدھی سے کم قیمت پر فروخت کرنے والوںکو دستیاب ہو جاتی ہے، لیکن ٹکٹ کی مد میںفراڈ بہت ذیادہ ہےاور وہ خود 500 روپے کی ایک جعلی ٹکٹ خرید بیٹھے اور بعد میںدکاندار نے اس ٹکٹ کو خود سے خردیداری سے ماننے سے بھی انکار کر دیا ہے، کیونکہ اب ٹکٹ کا اندراج نہیںہوتا ہے اور صرف مخصوص مشین کے ذریعے ہی تصدیق ممکن ہے. اس لئے اس مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے، تاکہ عام افراد لٹنے سے بچ سکیں.